بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

سجدے میں ناک کے کون سے حصہ کو زمین پر رکھنا ضروری ہے؟


سوال

سجدے میں ناک کی حقیقت کو کتنا دبانا اور کون سے حصہ کو زمین پر لگانا ضروری ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں پیشانی کے ساتھ، ناک کے سخت حصہ کواطمینان سےکہ کسی قدرزمین کی سختی محسوس ہو رکھنا لازم ہے،عذر کے ساتھ کسی ایک پر اکتفاکرنا بھی جائز ہے عذر کے بغیر صرف ناک پرسجدہ کرنے سے سجدہ ادا نہیں ہوگااور بلاعذرصرف پیشانی اور ناک کے نرم حصہ پر سجدہ کرنے یاناک کو زمین سے الگ رکھنے کی صورت میں نماز تو اداہوجائے گی لیکن ایسا کرنا مکروہ تحریمی ہے۔ 

فتاوی ھندیہ میں ہے:

''وكمال السنة في السجود وضع الجبهة والأنف جميعاً ولو وضع أحدهما فقط إن كان من عذرلايكره، وإن كان من غيرعذر فإن وضع جبهته دون أنفه جاز إجماعاً ويكره، إن كان بالعكس فكذلك عند أبي حنيفة رحمه الله، وقالا : لا يجوز،وعليه الفتوى''۔

(كتاب الصلاة،الباب الرابع في صفة الصلاة،الفصل الاول في فرائض الصلاة، 1/ 70 ط:دارالفكر)

السعایۃ میں ہے:

"لايكفيه السجود علي الارنبة وان عليه ان يمكن ماصلب منه وفي كفاية المجالس لو وضع ارنبته لا يجوز وانما يجوز اذا وضع عظم انفه۔"

(باب صفة الصلوة، 1 /118 ط سهيل اكيڈمي)

الجوهرة النيرة ميں هے:

"( قوله : فإن اقتصر على أحدهما جاز عند أبي حنيفة ) إنما يجوز الاقتصار على الأنف إذا سجد على ما صلب منه أما إذا سجد على ما لان منه وهو الأرنبة لا يجوز .

( قوله : وقال أبو يوسف ومحمد لا يجوز الاقتصار على الأنف إلا من عذر ) وهو رواية عن أبي حنيفة وعليه الفتوى۔"

(كتاب الصلاة، باب شروط صحة الصلاة  1/ 53 ط:المطبعة الخيرية)

مرقاۃ شرح مشکاۃ میں ہے:

"وقال: ثم سجدفأمكن اي أقدر انفه وجبهته الارض اي وضعهماعلي الارض مع الطمانينة۔۔۔ قال ابن الهمام: المعتبر وضع ما صلب من الانف لاما لان۔"

(كتاب الصلاة، باب صفة الصلاة 2/ 662، ط: دار الفكر بيروت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144408100428

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں