بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

سجدے میں دل دل میں دعائیں مانگنے سے نماز کا حکم


سوال

میں نے پڑھا ہے کہ نماز میں اکر کسی رکن میں تاخیر ہو جاۓ تو سجدہ سہو لازم ہو جاتا ہے۔ میں کچھ سالوں سے لا علمی میں فرض نمازوں میں سجدے میں سبحان ربي الاعلى پڑھنے کے بعد دیر تک بغیر زبان ہلائے دل ہی دل میں دعائیں کرتی رہتی تھی یا دنیاوی باتیں سوچتی رہتی تھی۔ اب مجھے لگتا ہے کہ اس سے میری اگلی رکعتوں میں تاخیر ہو جاتی تھی تو کیا مجھ پر ان ساری نمازوں میں سجدہ سہو واجب تھا؟ نیز اگر رکن میں تاخیر کرنے پر میں نے سجدہ سہو نہیں کیا تو کیا میری نمازیں درست نہیں تھیں اور کیا مجھے ان کو پھر سے پڑھنا ہوگا؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں جب آپ فرض نمازوں کے سجدے میں تسبیحات کے بعد خاموش رہتی تھیں اور اتناوقت گزرجاتا جس میں ایک رکن ادا کیا جاتاہو یعنی تین تسبیحات کی مقدار وقت خاموشی میں گزرجاتا تھا، تو اس کی وجہ سے آپ پر سجدہ سہو کرنا لازم تھا۔اور سجدہ سہو بھول جانے کی صورت میں وقت کے اندر اندر اس نماز کا اعادہ لازم تھا۔ اب جب وقت گزر گیا ہے تو ان نمازوں کا اعادہ لازم نہیں ، تاہم اگر آپ کو ان نمازوں کی تعداد یاد ہو اور ان نمازوں کا اعادہ کرلیں تو مستحب ہوگا۔

فتاوی شامی میں ہے:

"و) اعلم أنه (إذا شغله ذلك) الشك فتفكر (قدر أداء ركن ولم يشتغل حالة الشك بقراءة ولا تسبيح) ذكره في الذخيرة (وجب عليه سجود السهو في) جميع (صور الشك) سواء عمل بالتحري أو بنى على الأقل فتح لتأخير الركن، لكن في السراج أنه يسجد للسهو في أخذ الأقل مطلقا، وفي غلبة الظن إن تفكر قدر ركن.

(قوله واعلم إلخ) قال في المنية وشرحها الصغير: ثم الأصل في التفكر أنه إن منعه عن أداء ركن كقراءة آية أو ثلاث أو ركوع أو سجود أو عن أداء واجب كالقعود يلزمه السهو لاستلزام ذلك ترك الواجب وهو الإتيان بالركن أو الواجب في محله، وإن لم يمنعه عن شيء من ذلك بأن كان يؤدي الأركان ويتفكر لا يلزمه السهو. وقال بعض المشايخ: إن منعه التفكر عن القراءة أو عن التسبيح يجب عليه سجود السهو وإلا فلا، فعلى هذا القول لو شغله عن تسبيح الركوع وهو راكع مثلا يلزمه السجود، وعلى القول الأول لا يلزمه وهو الأصح اهـ."

(‌‌كتاب الصلاة ،باب سجودالسہو،ج:2،ص:93،ط:سعید)

حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح میں ہے:

"ولا يسجد في" الترك العمد للسهو" لأنه أقوى "قيل إلا في ثلاث" مسائل "ترك القعود الأول" عمدا "أو تأخير سجدة من الركعة الأولى" عمدا "إلى آخر الصلاة و" الثالثة "‌تفكره ‌عمدا حتى شغله عن" مقدار "ركن" سئل فخر الإسلام البديعي كيف يجب بالعمد؟ قال ذاك سجود العذر لا سجود السهو.

"لا في ثلاث" يزاد ما لو صلى على النبي في القعود الأول عمدا ما إذا ترك الفاتحة عمدا قوله: "أو تأخيره سجدة من الركعة الأولى" الأولى تعبير بعضهم حيث قال أواخر إحدى سجدتي ركعة إلى ما بعدها عمدا قوله: "ذاك سجود العذر" أي السجود الذي يفعل للإعتذار عما وقع منه."

(کتاب الصلاۃ،باب سجود السہو،ص:462،ط؛دار الکتب العلمیۃ)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144507100876

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں