بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

سجدہ شکر کا حکم اور اس کی شرائط


سوال

سجدۂ شکر کا حکم کیا ہے؟ کیا سجدۂ شکر ہر وقت کیا جاتا ہے؟ نماز کو بڑی نعمت مان  کر اس  کے لیے سجدۂ شکر ادا کرنا صحیح ہوگا؟سجدۂ شکر  کی شرائط کیا ہیں؟

جواب

کسی نعمت  کے  حصول  یا مصیبت کے ٹل جانے کے وقت اللہ تعالی کا شکر بجالانے کا مکمل طریقہ یہ ہے کہ شکرانے کے کم از کم دو نفل پڑھے جائیں، لیکن اگر کوئی شخص اس موقع پر سجدۂ شکر ادا کرنا چاہے تو اس کی بھی اجازت ہے۔

اس کی تفصیل یہ ہے کہ  نمازِ شکر کا پڑھنا آں حضرتﷺ سے ثابت ہے، رسول اللہ ﷺ فتح مکہ کے موقع  سیدھے اپنی چچازاد بہن حضرت ام ہانی رضی اللہ عنہا کے گھر داخل ہوئے ،غسل فرمایا اورہلکی قراءت فرماکر آٹھ رکعات  نماز ادا کی، اس نماز  کو ’’صلاۃ الفتح ‘‘ اور ’’صلاۃ الشکر‘‘ بھی کہتے ہیں،  اورچوں کہ چاشت کے وقت  ان نوافل کی ادائیگی کی گئی تھی اس لیے ’’صلاۃ الضحی‘‘ بھی کہتے ہیں، بہرحال اس نماز کی اصل غرض اللہ تعالی  کا شکر ہی ادا کرنا تھا۔اسی طرح رسول اللہ ﷺ  کو جب  بدر کے دن  ابوجہل کی موت  کی خبر   ملی تو آپ ﷺ نے    نمازِ شکر ادا کی۔ 

نیز رسول اللہ ﷺ سے مختلف مواقع پر سجدہ شکر کرنا بھی ثابت ہے، حدیث میں آتا ہے کہ رسول ﷺ کے پاس جب کوئی خوش کن خبر آتی تو آپ اللہ تعالی کے حضور سجدہ ریز ہوجاتے۔

لہذا    کسی  نعمت کے مل جانے پر یا  کسی  مصیبت کے ٹل جانے پر سجدہ شکر ادا کرنا جائز ہے ۔ اور مکمل نماز پڑھنا شکرکا اعلی درجہ ہے۔سجدہ شکر کی صورت یہ ہے کہ تکبیر کہہ کرانسان سجدے میں چلا جائے اوراللہ تعالی کی حمداورتسبیح بیان کرے اورپھر دوسری تکبیر کہہ کرسجدے سے سراٹھالے۔ مگر فرض نماز کے بعد اور  مکروہاوقات میں ایسا کرنے سے گریز کرے۔

بے شک نماز کی ادائیگی کی توفیق ملنا بڑی نعمت ہے، لیکن نماز خود شکر ہے، اور اس کی ہر رکعت میں دو سجدے موجود ہیں، نیز رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین سے نمازوں کے بعد سجدۂ شکر ادا کرنا منقول نہیں ہے؛ لہٰذا نماز کے بعد سجدۂ شکر ادا کرنا درست نہیں ہے، فقہاءِ کرام نے لکھا ہے کہ  فرض نماز کے بعد  سجدۂ شکر مکروہ ہے۔

تفسیر ابن کثیر میں ہے:

" فالذي فسر به بعض الصحابة من جلساء عمر، رضي الله عنهم أجمعين، من أنه قد أمرنا إذا فتح الله علينا المدائن والحصون أن نحمد الله ونشكره ونسبحه، يعني نصلي ونستغفره -معنى مليح صحيح، وقد ثبت له شاهد من صلاة النبي صلى الله عليه وسلم يوم فتح مكة وقت الضحى ثماني ركعات، فقال قائلون: هي صلاة الضحى. وأجيبوا بأنه لم يكن يواظب عليها، فكيف صلاها ذلك اليوم وقد كان مسافرا لم ينو الإقامة بمكة؟ ولهذا أقام فيها إلى آخر شهر رمضان قريبا من تسعة عشر يوما يقصر الصلاة ويفطر هو وجميع الجيش، وكانوا نحوا من عشرة آلاف. قال هؤلاء: و إنما كانت صلاة الفتح."

(جلد8 ص: 511 ط:دار طیبۃ للنشر و التوزیع)

سنن نسائی میں ہے:

"حدثنا عبدة بن عبد الله الخزاعي، وأحمد بن يوسف السلمي، قالا: حدثنا أبو عاصم، عن بكار بن عبد العزيز بن عبد الله بن أبي بكرة، عن أبيه، عن أبي بكرة، أن النبي صلى الله عليه وسلم «كان إذا أتاه أمر يسره أو بشر به، خر ساجدا، شكرا لله تبارك وتعالى»"

‌‌(کتاب اقامۃ الصلوۃ و السنۃ فیہا، باب ماجاءفی الصلوۃ و السجدۃ عند الشکر جلد۱ص:۴۴۶  ط:دار احیاء الکتب العربیۃ)

تفسیر روح البیان میں ہے:

"و أما ‌سجدة ‌الشكر و هي أن يكبر و يخرّ ساجدًا مستقبل القبلة فيحمده تعالى و يشكره و يسبح ثم يكبر فيرفع رأسه فقد قال الشافعي: يستحب سجود الشكر عند تجدد النعم كحدوث ولد أو نصر على الأعداء و نحوه و عند دفع نقمة كنجاة من عدوّ أو غرق و نحو ذلك."

(جلد ۴ص:۳۵۷ ط:دارالفکر)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

" أن من تجددت عنده نعمة ظاهرة أو رزقه الله تعالى ولدا أو مالا أو وجد ضالة أو اندفعت عنه نقمة أو شفي مريض له أو قدم له غائب يستحب له أن يسجد شكرا لله تعالى مستقبل القبلة يحمد الله فيها ويسبحه ثم يكبر أخرى فيرفع رأسه كما في سجدة التلاوة، كذا في السراج الوهاج."

(کتاب الصلوۃ الباب الثالث عشر فی سجود التلاوۃ جلد ۱ ص:۱۳۶ ط:دارالفکر)

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله: لكنها تكره بعد الصلاة) الضمير للسجدة مطلقًا. قال في شرح المنية آخر الكتاب عن شرح القدوري للزاهدي: أما بغير سبب فليس بقربة و لا مكروه، و ما يفعل عقيب الصلاة فمكروه؛ لأنّ الجهال يعتقدونها سنّة أو واجبة، و كلّ مباح يؤدي إليه فمكروه، انتهى.

و حاصله أن ما ليس لها سبب لاتكره ما لم يؤد فعلها إلى اعتقاد الجهلة سنيتها كالتي يفعلها بعض الناس بعد الصلاة و رأيت من يواظب عليها بعد صلاة الوتر و يذكر أن لها أصلًا و سندًا فذكرت له ما هنا فتركها ثم قال في شرح المنية: و أما ما ذكر في المضمرات أن النبي صلى الله عليه وسلم قال لفاطمة - رضي الله تعالى عنها -: «ما من مؤمن و لا مؤمنة يسجد سجدتين» إلى آخر ما ذكر ". فحديث موضوع باطل لا أصل له.

(قوله: فمكروه) الظاهر أنها تحريمية؛ لأنه يدخل في الدين ما ليس منه ط."

(کتاب الصلوۃ ، باب سجود التلاوۃ جلد۲ ص:۱۲۰ ط:دارالفکر)

فقط و اللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144307101268

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں