بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

سجدہ سہو واجب ہونے کی مختلف صورتیں


سوال

اگر نماز میں یاد نہ آئے کہ سجدہ سہو کرلیا یا نہیں تو کیا کریں؟

اگر التحیات اور سلام پھیرے بغیر سجدہ سہو کرلیا تو کیا کرے؟

اگر کسی نے التحیات اور سلام پھیرے بغیر سجدہ سہو کرلیا پھر یاد آنے پہ سلام کیا اور دو دفعہ التحیات تشھد کیا تو کیا نماز ہوگی؟

زید جب سجدہ کرتا ہے تو اس کو اکثر شک ہوتا ہے کہ یہ سجدہ نماز کا سجدہ ہے یا سجدہ سہو کا تو اس وقت کیا کرے؟

اگر رکوع کرنا بھول جائے پھر سجدے میں جا کر یاد آئے کہ رکوع نہیں کیا تو کیا کرے؟

اگر رکوع کرنا بھول جائے پھر سجدے میں جا کر یاد  آیا کہ رکوع نہیں کیا تو اگر وہ سجدہ چھوڑ کر کھڑا ہو گیا ہو اور رکوع قومہ کرلیا پھر واپس پہلا سجدہ کیا اور پھر دوسرا تو نماز  ہوجائے گی؟ اور کیا رکوع کے  لیے کھڑے ہونے میں تکبیر پڑھے؟

جس نے تکبیر پڑھی یا نہ پڑھی تو نماز کا حکم؟

اگر اس نے پہلا سجدہ مکمل کیا اور پھر کھڑا ہوا اور رکوع قومہ کیا پھر جلسہ کیا پھر دوسرا سجدہ کیا تو نماز کا حکم؟ اس ہی مسئلے میں کوئی جلسہ کرنا بھول جائے تو نماز کا حکم؟

جواب

صورت مسئولہ میں اگر سجدہ سہو کے کرنے یا ناکرنے میں شک ہوگیا ہے تو غالب گمان پر عمل کرے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"لأن غلبة الظن بمنزلة اليقين، فإذا تحرى وغلب على ظنه شيء لزمه الأخذ به، ولا يظهر وجه لإيجاب السجود عليه إلا إذا طال تفكره."

(کتاب الصلوۃ، باب سجود السهو جلد ۲ ص:۹۲ ط:دارالفکر)

اور اگر کسی نے تشہد پڑھے بغیر سلام سے پہلے سجدہ سہو کر لیا تو نماز صحیح ہوگئی ہے۔

فتاوی عالمگیری میں ہے:

" و لو سجد قبل السلام أجزأه عندنا هكذا رواية الأصول ويأتي بتسليمتين هو الصحيح، كذا في الهداية.

و الصواب أن يسلم تسليمة واحدة و عليه الجمهور و إليه أشار في الأصل، كذا في الكافي. و يسلم عن يمينه، كذا في الزاهدي. و كيفيته أن يكبر بعد سلامه الأول و يخرّ ساجدًا و يسبح في سجوده ثم يفعل ثانيًا كذلك ثم يتشهد ثانيًا ثم يسلم، كذا في المحيط."

(کتاب الصلوۃ ، الباب الثانی عشر فی سجود السہو جلد۱ ص:۱۲۵ ط:دارالفکر)

اور اگر کسی نے تشہد پڑھے بغیر قبل السلام سجدہ سہو کر لیاپھر یاد آنے پر دو مرتبہ تشہد پڑھا اور سلام پھیراتو نماز ہوجائے گی دوبارہ سجدہ سہو واجب نہیں ہے۔

فتاوی عالمگیری میں ہے:

" و لو كرر التشهد في القعدة الأولى فعليه السهو... و لو كرره في القعدة الثانية فلا سهو عليه، كذا في التبيين."

(کتاب الصلوۃ ، الباب الثانی عشر فی سجود السہو جلد۱ ص:۱۲۷ ط:دارالفکر)

جب نماز کے سجدے میں اور سجدہ سہو میں شک ہوجائے تو غور و فکر کرے اور ظن غالب پر عمل کرے  ۔

فتاوی شامی میں ہے:

" لأن غلبة الظن بمنزلة اليقين، فإذا تحرى وغلب على ظنه شيء لزمه الأخذ به، ولا يظهر وجه لإيجاب السجود عليه إلا إذا طال تفكره."

(کتاب الصلوۃ باب سجود السہو جلد ۲ ص:۹۲ ط:دارالفکر)

اگر رکوع کرنا بھول گیا اور سجدے میں یاد اآئے تو رکوع کرے اور اس کے بعد دوبارہ سجدہ کرے ۔

 اور سجدہ میں چلا گیااور سجدہ میں یاد آیا کہ رکوع نہیں کیاتو سجدہ چھوڑ کر رکوع کر لیا پھر قومہ کیا اور پھر سجدہ کیا تو نماز ہوجائے اور آخر میں سجدہ سہو لازم ہوگااور رکوع میں جانے کے لیے تکبیر کہے گا۔

فتاوی عالمگیری میں ہے:

" و كذا إذا سجد في موضع الركوع أو ركع في موضع السجود أو كرر ركنًا أو قدم الركن أو أخره ففي هذه الفصول كلها يجب سجود السهو."

(کتاب الصلوۃ ، الباب الثانی عشر فی سجود السہو جلد ۱ ص:۱۲۷ ط:دارالفکر)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"(و منها) رعاية الترتيب في فعل مكرر فلو ترك سجدة من ركعة فتذكرها في آخر الصلاة سجدها وسجد للسهو لترك الترتيب فيه وليس عليه إعادة ما قبلها ولو قدم الركوع على القراءة لزمه السجود لكن لا يعتد بالركوع فيفرض إعادته بعد القراءة، كذا في البحر الرائق."

(کتاب الصلوۃ ، الباب الثانی عشر فی سجود السہو جلد۱ ص:۱۲۷ ط:دارالفکر)

اور اگر تکبیر نہیں پڑھی تو ہوجائے گی سجدہ سہو واجب نہ ہوگا کیوں کہ تکبیر کہنا سنت ہے۔

فتاوی عالمگیری میں ہے:

" و لايجب بترك التعوذ والبسملة في الأولى و الثناء و تكبيرات الانتقالات الخ۔"

(کتاب الصلوۃ، الباب الثانی عشر فی سجود السہو جلد ۱ ص:۱۲۶ ط:دارالفکر)

اور اگر کوئی شخص جلسہ کرنا بھول گیا تو اس پر سجدہ سہو کرنالازم ہے۔

البحرالرائق میں ہے:

" و في المحيط: لو ترك تعديل الأركان أو القومة التي بين الركوع والسجود ساهيا لزمه سجود السهو اهـ.

فيكون حكم الجلسة بين السجدتين كذلك؛ لأن الكلام فيهما واحد والقول بوجوب الكل هو مختار المحقق ابن الهمام."

(کتاب الصلوۃ ، باب صفۃ الصلوۃ جلد۱ ص:۳۱۷ ط:دارالکتاب الاسلامی)

فقط و اللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307100315

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں