بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

سجدہ کی حالت میں درورد شریف پڑھنا


سوال

کیا نماز کے سجدہ میں دعائیں مانگتے  ہوئے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود  پڑھ سکتے ہیں؟

جواب

 از روئے  حدیث نماز  کا  سجدہ محلِ  دعا ہے،  پس سجدہ کی حالت میں دعا کرنے کی شرعًا اجازت ہے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سجدہ کی حالت میں  مختلف دعا کرنا احادیث میں منقول ہے:

873- وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَلَا إِنِّي نُهِيتُ أَنْ أَقْرَأَ الْقُرْآنَ رَاكِعًا أَوْ سَاجِدًا، فَأَمَّا الرُّكُوعُ فَعَظِّمُوا فِيهِ الرَّبَّ وَأَمَّا السُّجُودُ فَاجْتَهِدُوا فِي الدُّعَاءِ، فَقَمِنٌ أَنْ يُسْتَجَابَ لَكُمْ» "، رَوَاهُ مُسْلِمٌ.

ترجمہ: عبد اللہ بن عباس رضی اللہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: خبردار! مجھے رکوع اور سجدہ کی حالت میں قرآن مجید پڑھنے سے منع کیا گیا ہے، رہی بات رکوع کی تو اس میں رب کی تعظیم بیان کیا کرو، اور رہی بات سجدہ کی تو اس میں خوب دعا کیا کرو، تمہارے لیے  دعا کی قبولیت کے زیادہ لائق ہے۔

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح میں ہے:

"( «وَأَمَّا السُّجُودُ فَاجْتَهِدُوا» ) ، أَيْ: بَالِغُوا (فِي الدُّعَاءِ) ، أَيْ: حَقِيقَةً وَهُوَ ظَاهِرٌ أَوْ حُكْمًا كَمَا فِي: " «سُبْحَانَ رَبِّيَ الْأَعْلَى» " وَقَالَ بَعْضُهُمْ: ادْعُوا بَعْدَ قَوْلِ سُبْحَانَ رَبِّيَ الْأَعْلَى، وَقَالَ الطِّيبِيُّ: وَأَمْرُهُ إِيَّاهُ بِالتَّعْظِيمِ لِلرَّبِّ فِي الرُّكُوعِ وَبِالدُّعَاءِ فِي السُّجُودِ يَدُلُّ عَلَى أَنَّ النَّهْيَ عَنِ الْقِرَاءَةِ لَيْسَ مَخْصُوصًا بِهِ عَلَيْهِ السَّلَامُ، بَلِ الْأُمَّةُ دَاخِلُونَ مَعَهُ فِيهِ، وَقَالَ ابْنُ الْمَلَكِ: الْأَمْرُ فِيهِ لِلنَّدْبِ لَا لِلْوُجُوبِ؛ لِأَنَّهُ عَلَيْهِ السَّلَامُ حِينَ عَلَّمَ الْأَعْرَابِيَّ لَمْ يَأْمُرْهُ بِهِ."

( كتاب الصلاة، باب الركوع، ٢ / ٧١١، ط: دار الفكر)

مرعاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح لعبيد الله الرحماني المباركفوري میں ہے:

(وأما السجود فاجتهدوا) أي بالغوا. (في الدعاء) قال السندي: قوله: "فعظموا فيه الرب" أي اللائق به في تعظيم الرب، فهو أولى من الدعاء، وإن كان الدعاء جائزاً أيضاً، فلا ينافي أنه كان يقول في ركوعه: اللهم اغفرلي، وقوله فاجتهدوا في الدعاء، أي أنه محل لاجتهاد الدعاء، وأن الاجتهاد فيه جائز بلا ترك أولوية، وكذلك التسبيح فإنه محل له أيضاً- انتهى. والحديث دليل على مشروعية الدعاء حال السجود بأي دعاء كان من طلب خير الدنيا والآخرة، والاستعاذة من شرهما. ( كتاب الصلاة، باب الركوع، الفصل الأول، ٣ / ١٨٧)

درود شریف خود ایک دعا ہے جو شخص درود شریف کا اہتمام کرتا ہے اللہ تعالی اس کی حاجتیں بغیر مانگے  غیب سے پوری فرماتے ہیں، لہذا سجدہ کی حالت میں اگر کوئی درود شریف پڑھ لیتا ہے، تو نماز ہوجائے گی، سجدہ سہو بھی واجب نہ ہوگا، تاہم امام کو چاہیے کہ   مقتدیوں کی رعایت رکھتے ہوئے "سبحان ربی الأعلى"   کے علاوہ دیگر دعائیں وغیرہ  نہ پڑھے، اور "سبحان ربی الأعلى"  بھی پانچ مرتبہ سے زیادہ نہ پڑھے۔

سنن الترمذي (ت:  شاكر و  ألباني)  میں ہے:

'' قال أبي: قلت: يا رسول الله إني أكثر الصلاة عليك، فكم أجعل لك من صلاتي ؟ فقال: ما شئت، قال: قلت: الربع؟ قال: ما شئت، فإن زدت فهو خير لك! قلت: النصف؟ قال: ما شئت، فإن زدت فهو خير لك! قال: قلت: فالثلثين؟ قال: ما شئت، فإن زدت فهو خير لك! قلت: أجعل لك صلاتي كلها، قال: إذا تكفى همك، ويغفر لك ذنبك'' . قال أبو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.'' ( ٤ / ٦٣٦)

ترجمہ: حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا:  اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! میں آپ پر کثرت سے درود بھیجتاہوں، اپنی دعا میں کتنا وقت درود کے لیے خاص کروں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: جتنا تم چاہو۔ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: کیا ایک چوتھائی صحیح ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: جتنا تم چاہو، لیکن اگر اس سے زیادہ کرو تو تمہارے لیے اور اچھاہے! میں نے عرض کیا: نصف وقت مقرر کرلوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: جتنا تم چاہو، لیکن اس سے زیادہ کرو تو تمہارے لیے اور اچھا ہے! میں نے عرض کیا: دو تہائی وقت مقرر کردوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: جتنا تم چاہو، لیکن اس سے زیادہ کرو تو تمہارے لیے ہی بہتر ہے۔میں نے عرض کیا: میں اپنی ساری دعا کا وقت درود کے لیے وقف کرتاہوں! اس پر آپ ﷺ نے فرمایا: یہ تیرے سارے دکھوں اور غموں کے لیے کافی ہوگا، اور تیرے گناہوں کی بخشش کا باعث ہوگا۔

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144109202662

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں