بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

سجدہ سہولازم نہ ہواور امام سجدہ سہو کرلے تو مسبوق کی نمازکا حکم / سری نماز میں جہری قراءت سے سجدہ سہو لازم ہوجانے کی مقدار


سوال

اگرسجدہ سہولازم نہ ہواور امام سجدہ سہوکرلےتومسبوق کی نمازکاکیاحکم ہےفاسدہوا یانہیں؟

اور سجدہ سہوسری نماز میں کتنےحروف جہرًاکہنےسےلازم ہوگا 21 حروف یا 27 حروف؟

جواب

1۔۔  اگر امام یہ سمجھ کر سجدہ سہو کرے میرے اوپر سجدہ سہو تھا، اور بعد میں معلوم ہوا کہ امام پر سجدہ  سہو نہ تھا تو ایسی صورت میں امام اور مدرکین کی نماز توصحیح ہوجائے گی،البتہ  مسبوق کی نماز میں اختلاف ہے ، فساد اورعدم فساد دونوں قول منقول ہیں، اعادہ کرنا احوط ہے، اور اعادہ نہ کرنے کی بھی گنجائش ہے،اس لئے فتویٰ اس پر ہے کہ مسبوق کی نماز بھی درست ہوجائے گی۔(1/562امدادالاحکام)

البتہ امام کے ساتھ سجدہ سہو کرنے کی صورت میں مسبوق کے لیے حکم یہ ہے کہ وہ سجدہ سہو کا سلام نہ پھیرے، سجدے اور تشہد میں امام کی متابعت کرے۔ 

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 599)
ولو ظن الإمام السهو فسجد له فتابعه فبان أن لا سهو فالأشبه الفساد لاقتدائه في موضع الانفراد.
(قوله فالأشبه الفساد) وفي الفيض: وقيل لا تفسد وبه يفتي. وفي البحر عن الظهيرية قال الفقيه أبو الليث: في زماننا لا تفسد لأن الجهل في القراء غالب. اهـ. والله أعلم.

2۔۔ جن نمازوں میں یا جن رکعتوں میں  آہستہ آواز سے قراءت کرنا ضروری ہےاس میں اگر امام بلند آواز سے تلاوت کرلیتا ہے  تو اگر اتنی مقدار بلند آواز سے سے  قراءت کرلے کہ جس  مقدارِ قراءت سے نماز درست  ہوجاتی ہے یعنی تین مختصر آیتوں یا ایک لمبی آیت کے بقدر  (تقریبا  تیس حروف کی مقدار)تو اس سے سجدہ سہو لازم ہوجاتا ہے، صرف ایک دو کلمہ  سری نماز میں  بلند آواز سے اور جہری نمازوں میں آہستہ آواز سے قراءت کرلینے سے سجدہ سہو لازم نہیں ہوتا۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 81):

"(والجهر فيما يخافت فيه) للإمام، (وعكسه) لكل مصل في الأصح، والأصح تقديره (بقدر ما تجوز به الصلاة في الفصلين. وقيل:) قائله قاضي خان، يجب السهو (بهما) أي بالجهر والمخافتة (مطلقاً) أي قل أو كثر.

(قوله: والجهر فيما يخافت فيه للإمام إلخ) في العبارة قلب، وصوابها: والجهر فيما يخافت لكل مصل، وعكسه للإمام، ح وهذا ما صححه في البدائع والدرر، ومال إليه في الفتح وشرح المنية والبحر والنهر والحلية على خلاف ما في الهداية والزيلعي وغيرهما، من أن وجوب الجهر والمخافتة من خصائص الإمام دون المنفرد.

والحاصل: أن الجهر في الجهرية لا يجب على المنفرد اتفاقاً؛ وإنما الخلاف في وجوب الإخفاء عليه في السرية، وظاهر الرواية عدم الوجوب، كما صرح بذلك في التتارخانية عن المحيط، وكذا في الذخيرة وشروح الهداية كالنهاية والكفاية والعناية ومعراج الدراية. وصرحوا بأن وجوب السهو عليه إذا جهر فيما يخافت رواية النوادر اهـ فعلى ظاهر الرواية لا سهو على المنفرد إذا جهر فيما يخافت فيه، وإنما هو على الإمام فقط.

(قوله: والأصح إلخ) وصححه في الهداية والفتح والتبيين والمنية؛ لأن اليسير من الجهر والإخفاء لا يمكن الاحتراز عنه، وعن الكثير يمكن، وما تصح به الصلاة كثير، غير أن ذلك عنده آية واحدة، وعندهما ثلاث آيات هداية. (قوله: في الفصلين) أي في المسألتين مسألة الجهر والإخفاء".

فقط واللہ اعلم

 


فتوی نمبر : 144108200645

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں