بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

سجدہ سہو بھول جائے تو وقت گزرنے کے بعد اس کا اعادہ مستحب ہے یا واجب؟


سوال

ہم نے  آپ حضرات کی خدمت میں ایک مسئلہ بعنوان"نماز میں واجب چھوٹ جائے اور سجدہ سہو نہ کرے اور نماز کا اعادہ عندا لاحناف واجب ہوگا یا مستحب؟"ارسال کیاتھا، اس کے جواب میں آپ حضرات نے مستحب ہونے کی ترجیح دی تھی، لیکن اس کے بر عکس دار الافتاء جامعہ خیر المدارس کے مفتی محمد عبد اللہ صاحب نے اور دار الافتاء دار العلوم کراچی والوں نے وجوب والے قول کو راجح  اور مستحب والے قول کو مرجوح قرار دیاہے۔

مفتی صاحب آپ حضرات کے فتوی میں اور ان کے فتوی میں ظاہرا تعارض ہے،براہ ِکرم ان کے دلائل کو مد نظر رکھتے ہوئے اگر تعارض کو رفع کرکے بندے کی الجھن دور فرمائیں تو نوازش ہوگی۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں ہمارے فقہاءکرام ؒ کااس بات میں اختلاف ہے کہ:کراہت کے ساتھ پڑھی گئی نمازکا اعادہ وقت گزرنے کے بعد واجب ہے یا مستحب،تاہم  راجح قول کے مطابق وقت کے اندر اعادہ واجب ہےاور وقت گزرنے کے بعد مستحب اور اسی قول کو فقہاء کے ایک جم غفیر (علامہ ابن نجیم، علامہ حصکفی، علامہ طحطاوی اور علامہ حموی وغیرہ )نے اختیار کیا ہے، اور ہمارے اکابر نے بھی اسی قول پر فتوی دیا ہے۔

الدر المختار میں ہے:

"وفي وقته لخلل غير الفساد لقولهم: كل صلاة أديت مع كراهة التحريم تعاد: أي ‌وجوبا ‌في ‌الوقت، وأما بعده فندبا."

(کتاب الصلاة، باب قضاء الفوائت،ص:97، ط:دار الكتب العلمية)

البحر الرائق میں ہے:

"وظاهر كلامهم أنه إذا لم يسجد فإنه يأثم بترك الواجب ولترك سجود السهو ثم اعلم ‌أن ‌الوجوب ‌مقيد بما إذا كان الوقت صالحا حتى أن من عليه السهو في صلاة الصبح إذا لم يسجد حتى طلعت الشمس بعد السلام الأول سقط عنه السجود."

(کتاب الصلاة، باب قضاء الفوائت،ج:2،ص:99،ط:دار الکتاب الاسلامی)

حاشیۃ الطحطاوی میں ہے:

"وإعادتها بتركه عمدا" أي ما دام الوقت باقيا وكذا في السهو ان لم يسجد له وإن لم يعدها حتى خرج الوقت تسقط مع النقصان وكراهة التحريم ويكون فاسقا آثما وكذا الحكم في كل صلاة أديت مع كراهة التحريم والمختار أن المعادة لترك واجب نفل جابر والفرض سقط بالأولى لأن الفرض لا يتكرر كما في الدر وغيره ويندب إعادتها لترك السنة."

(کتاب الصلاة، باب قضاء الفوائت،ص:248، ط:دار الكتب العلمية)

شرح الحموی میں ہے:

"وإن لم يتم ركوعه ولا سجوده يؤمر بالإعادة في الوقت لا بعده. رأيت القضاء في الحالين أولى."

(کتاب الصلاۃ، ج:2، ص:30،ط:دار الکتب العلمیة)

امداد المفتین میں ہے:

"اگر  امام صاحب اتنے کھڑے ہوچکے تھے کہ ٹانگیں سیدھی ہوگئی تھیں، اگر چہ پشت وغیرہ سیدھی نہیں ہوئی تھی اور اس حالت کے بعد پھر بیٹھ گئے ، تب تو سجدہ  سہو واجب ہوگا اور  اگر نہ کیا تو نماز باطل تو نہ ہوگی، مگر وقت کے اندر اس نماز کا اعادہ واجب ہوگا اور اگر اعادہ نہ کیا اور وقت گزرگیا تو پھر بطور قضاء اعادہ نہ کیا جائے۔"

(کتاب الصلاۃ، ج:2، ص:316،ط دار الاشاعت)

امداد الفتاوی میں ہے:

"سوال:قاضی خان نولکشوری ج:۱، ص:۵۹ پر ہے:كل مايمنع البناء إذا وجد بعد السلام ليسقط السهو، کیا سجدۂ سہو ہر صورت میں ساقط ہوجائے گا، خواہ مانع بناء سہوا پایا جائے یا عمدا اور خواہ وہ فعل موجب سجدہ سہو کو موجب سجدہ جانتاہو یا نہ یا کسی خاص صورت کے ساتھ مخصوص ہے نیز سقوط سجدہ کا کیا مطلب ہے؟،آیا سقوط من ہذہ الصلوة مع وجوب إعادة تلك الصلاة يامطلقا بلا وجوب إعادة صلوة ؟، اگر یہ مطلب ہے کہ سجدہ ہر صورت میں ساقط ہے خواہ فعل منافی بنا تذکر سجدۂ سہو کے ساتھ کیا ہو یا بحالت سہو یا ایسی صورت میں کہ اس کو وجوب سجدۂ سہو کا ہی علم نہ ہو، اور سقوط کا یہ مطلب ہے کہ اس نماز کا اعادہ بھی ضروری نہیں تو وجوب سجدہ سہو کا ثمرہ صرف عقاب اخروی ہو سکتاہے وہ بھی بحالت قصدا ترک کرنے کے؟

جواب:فلو ‌طلعت ‌الشمس ‌في ‌الفجر، أو احمرت في القضاء، أو وجد منه ما يقطع البناء بعد السلام، سقط عنه. فتح ، بقي إذا سقط السجود ‌فهل ‌يلزمه ‌الإعادة لكون ما أداه أولا وقع ناقصا بلا جابر. والذي ينبغي أنه إن سقط بصنعه كحدث عمد مثلا يلزمه وإلا فلا تأمل(كتاب الصلاة، ج:2، ص:72،ط:سعيد)

اس سے معلوم ہوا کہ سجدۂ سہو ہر صورت میں ساقط ہوجاوے گا اور یہ بھی معلوم ہوا کہ اگر وہ مانع بناء عمدا پایا گیا تب تو اعادہ لازم ہے ورنہ نہیں۔"

(کتاب الصلاۃ، ج:۱، ص:۴۳۰، ط:مکتبہ دار العلوم کراچی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144405101612

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں