بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

سجدہ شکرادا کرنا، سجدہ میں دعا مانگنا


سوال

کیا بغیر نما زکے باوضو ہوکر سجدہ شکر یا کسی چیز کے مانگنے کے لیے سجدہ کرنا جائز ہے یا نہیں؟

جواب

سجدہ شکر کا حکم:

کسی نعمت کے حصول یا مصیبت کے ٹل جانے کے وقت اللہ تعالی کا شکر بجالانے کا مکمل طریقہ یہ ہے کہ شکرانے کے کم از کم دو نفل پڑھے جائیں، لیکن اگر کوئی شخص اس موقع پر سجدۂ شکر ادا کرنا چاہے تو اس کی بھی اجازت ہے۔

اس کی تفصیل یہ ہے کہ  نمازِ شکر کا پڑھنا آں حضرتﷺ سے ثابت ہے، رسول اللہ ﷺ فتح مکہ کے موقع  سیدھے اپنی چچازاد بہن حضرت ام ہانی رضی اللہ عنہا کے گھر داخل ہوئے ،غسل فرمایا اورہلکی قراءت فرماکر آٹھ رکعات  نماز ادا کی، اس نماز  کو ’’صلاۃ الفتح ‘‘ اور ’’صلاۃ الشکر‘‘ بھی کہتے ہیں،  اورچوں کہ چاشت کے وقت  ان نوافل کی ادائیگی کی گئی تھی اس لیے ’’صلاۃ الضحی‘‘ بھی کہتے ہیں، بہرحال اس نماز کی اصل غرض اللہ تعالی  کا شکر ہی ادا کرنا تھا۔اسی طرح رسول اللہ ﷺ  کو جب  بدر کے دن  ابوجہل کی موت  کی خبر   ملی تو آپ ﷺ نے    نمازِ شکر ادا کی۔ 

نیز رسول اللہ ﷺ سے مختلف مواقع پر سجدہ شکر کرنا بھی ثابت ہے، حدیث میں آتا ہے کہ رسول ﷺ کے پاس جب کوئی خوش کن خبر آتی تو آپ اللہ تعالی کے حضور سجدہ ریز ہوجاتے۔

لہذا    کسی  نعمت کے مل جانے پر یا  کسی  مصیبت کے ٹل جانے پر سجدہ شکر ادا کرنا جائز ہے   اور مکمل نماز پڑھنا شکرکا اعلی درجہ ہے۔سجدہ شکر کی صورت یہ ہے کہ تکبیر کہہ کرانسان سجدے میں چلا جائے اوراللہ تعالی کی حمداورتسبیح بیان کرے اورپھر دوسری تکبیر کہہ کرسجدے سے سراٹھالے،  مگرفرض نماز کے بعد یامکروہ اوقات میں ایسا کرنے سے گریز کرے۔

 سجدۂ  شکر سے متعلق امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی طرف منسوب  یہ جملہ کہ " وکان أبو حنیفة لایراهاشیئاً"  کا مطلب فقہاء نے یہ  بھی بیان کیا ہےکہ  حضرت امام صاحب سجدۂ شکر کو سنت نہیں سمجھتے تھے، اوریہ مطلب بھی لیا ہے کہ آپ سجدہ شکر کو مکمل شکر  نہیں سمجھتے  تھے ، کیوں کہ  کامل شکر مکمل نماز کی صورت میں ادا ہوتاہے جس کو ’’نمازِ شکر‘‘ کہتے ہیں،  اس لیے امام صاحب  رحمہ اللہ  کے نزدیک  صرف سجدہ ادا کرنے کے بجائے  ایسے  موقع پر مکمل   دو رکعت پڑھنی چاہیے، جس کو ’’نماز شکر‘‘ کہتے ہیں،  جیسا کہ آپ ﷺ  نے   فتح مکہ کے موقع پر اور بدر میں ابو جہل کی موت پر  ادا فرمائی ہے۔ اور تیسری توجیہ اس کی یہ ہے کہ فرض نماز کے فوراً بعد بعض لوگ جو سجدہ کرتے ہیں، اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔

سجدے میں جاکر دعامانگنے کا حکم:

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ سجدہ کی حالت میں انسان اللہ تعالیٰ کے سب  سے زیادہ قریب  ہوتا ہے اور اس حالت میں دعا کی قبولیت کی زیادہ امید ہے، اس  میں اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی دعا قبول فرماتا ہے،لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جو روایات سجدہ میں دعا کرنے سے متعلق ملتی ہیں وہ نفلی نمازوں کے سجدوں میں دعا مانگنے سے متعلق ہیں، الگ سے سجدہ کرکے دعا مانگنے کا کسی حدیث سے صراحتاً ثبوت نہیں ملتا؛  لہٰذا نماز  کے باہر الگ سے سجدہ کرکے اس میں دعا مانگنے کی عادت نہیں بنانی  چاہیے، سجدے  میں دعا کرنی ہو تو نفلی نمازوں کے سجدوں میں عربی زبان میں دعائیں مانگنی چاہییں۔

بعض لوگ فرض نماز کے بعد سجدہ کرکے اس میں دعا مانگتے ہیں، اس حوالے سے  ایک سوال کے جواب میں فتاوی رحیمیہ میں ہے:

’’اس طرح کا سجدہ سجدۂ  مناجات کہلاتا ہے، اس کے بارے میں بعض علماءِ  دین کا قول ہے کہ مکروہ ہے ۔ مشکاۃ شریف کی شرح اشعۃ اللمعات میں ہے:

سوم: سجدۂ  مناجات بعد از نماز وظاہرکلام اکثر علماء آنست کہ مکروہ است۔

(اشعۃ للمعات ج ۱ص ۶۲۰) (شرح سفر السعادۃ۔ ص ۱۵۹)

لہذا اس کی عادت بنا لینا غلط ہے،  دعا اورمناجات کا مسنون طریقہ جس کی مسنونیت میں کسی کا بھی اختلاف نہیں ہے، اس کو ترک کر کے اختلافی طریقہ اختیار کرنا مناسب نہیں ہے ،  سجدہ میں دعا کرنے کی جو روایت ہے ۔ اس کے متعلق شرح سفر السعادۃ میں ہے:

وآنکہ در آحادیث آمدہ است کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم در سجدہ اطالت میفر مودود عابسیار میکرد مراد بدں سجدۂ  صلاتیہ است۔ (ص ۱۵۹)

یعنی حدیثوں میں جو وارد ہوا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ طویل فرماتے اور بہت دعا کیا کرتے تھے۔ اس سے مراد وہی سجدہ ہے جو نفل نماز میں کیا کرتے تھے ۔ پس تہجد کے سجدہ میں وہ دعائیں پڑھی جاسکتی ہیں جو احادیث میں وار د ہوئی ہیں۔‘‘

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144209200334

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں