بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

سجدہ سہوہ کا حکم کب اور کس موقع پر آیا؟


سوال

سجدہ سہو  کا حکم کب اور کس موقع پر آیا؟

جواب

روایات کے تتبع اور تلاش سے بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ سجدہ سہو کے حکم کا موقع حدیث ذوالیدین والا واقعہ تھا جس میں سجدہ سہو کیا گیا تھا،کیوں کہ اس پہلے اس طرح کا کوئی ایسا عمل نہیں ہوا ہے،جس میں سجدہ سہو کا تذکرہ آیا ہوں،جس کے تفصیل یہ ہے:

"حضرت ابن سیرین رحمہ اللہ  حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا " ایک دن سرور کونین ﷺ نے ظہر یا عصر کی نماز جس کا نام ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ نے تو بتایا تھا مگر میں بھول گیا، ہمیں پڑھائی۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے ہمارے ساتھ دورکعت نماز پڑھی اور تیسری رکعت کے لئے اٹھنے کی بجائے) سلام پھیر لیا، پھر اس لکڑی کے سہارے جو مسجد میں عرضا کھڑی تھی کھڑے ہو گئے اور (محسوس ایسا ہوتا تھا گویا آپ ﷺ غصہ کی حالت میں ہیں، آپ ﷺ نے اپنا داہنا ہاتھ اپنے بائیں ہاتھ پر رکھا اور انگلیوں میں انگلیاں ڈال لیں اور اپنا بایاں رخسار مبارک اپنے بائیں ہاتھ کی پشت پر رکھ لیا، جلد باز لوگ جو نماز کی ادائیگی کے بعد ذکر اور دعا وغیرہ کے لئےنہیں ٹھہرتے تھے ، مسجد کے دروازوں سے جانے لگے ، صحابہ کہنے لگے کہ کیا نماز میں کمی ہو گئی ہے ؟ کہ آنحضرت ﷺ نے چار رکعت کے بجائے دوہی رکعتیں پڑھی ہیں؟ صحابہ کے درمیان (جو مسجد میں باقی رہ گئے تھے) حضرت ابو بکر  رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی موجود تھے ،مگر خوف کی وجہ سے ان کو آنحضرت ﷺ سے کلام کرنے کی جرات نہ ہوئی صحابہ میں ایک اور شخص بھی تھے جن کے ہاتھ لمبے تھے اور جنہیں اسی وجہ سے ذوالیدین (یعنی ہاتھوں والا )کے لقب سے پکارا جاتا تھا انہوں نے آنحضرت ﷺ سے عرض کیا کہ "یارسول اللہ کیا آپ (ﷺ) بھول گئے ہیں یا نماز میں کمی ہوگئی ہے ؟ آنحضرت ﷺ نے فرمایا "نہ تومیں بھولا ہوں اور نہ نماز میں کمی ہوئی ہے "پھر صحابہ سے مخاطب ہوئے اور فرمایا کیا تم بھی یہی کہتے ہو ں جو ذوالیدین کہ رہے ہیں؟ صحابہ نے عرض کیا کہ "جی ہاں یہی بات ہے " (یہ سن کر) آنحضرت ﷺ آگے آئے اور جو نماز (یعنی دور کعت) چھوٹ گئی تھی اسے پڑھا اور سلام پھیر کر تکبیر کہی اور حسب معمول سجدوں جیسا یا ان سے بھی کچھ طویل سجدہ کیا اور پھر تکبیر کہہ کر سر اٹھایا " لوگ ابن سیرین سے پوچھنے لگے کہ "پھر اس کے بعد آنحضرت ﷺ نے سلام پھیر دیا ہو گا؟ انہوں نے کہا کہ مجھے عمران بن حصین  رضی اللہ عنہ سے یہ خبر ملی ہے کہ وہ کہتے تھے کہ "پھر آنحضرت ﷺ نے سلام پھیر دیا اس روایت کو بخاری ومسلم نے نقل کیا ہے مگر الفاظ بخاری کے ہیں۔

اور بخاری و مسلم ہی کی ایک اور روایت میں یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے (ذوالیدین کے جواب میں) لم انس ولم تقصر (یعنی : میں بھولا ہوں اور نہ نماز میں کمی ہوئی ہے) کے بجائے یہ فرمایا کہ "جو کچھ تم کہہ رہے ہو اس میں سے کچھ بھی نہیں ہے " انہوں نے عرض کیا کہ "یارسول اللہ ﷺ! اس میں سے کچھ تو ضرور ہوا ہے۔ "

تشریح :فتح الباری میں اس حدیث کی بہت لمبی چوڑی شرح کی گئی ہے اگر اس کو یہاں نقل کی جائے تو بات بڑی لمبی ہو جائے گی البتہ اتنا بتا دینا ضروری ہے کہ اس حدیث کے بارے میں دو اشکال پیدا ہوتے ہیں۔ پہلا اشکال تو یہ ہے کہ علماء کے نزدیک یہ بات مسلم ہے کہ خبر میں تو آنحضرت ﷺ کو سہو ہو ناناممکن ہے اور افعال میں بھی اختلاف ہے مگر آنحضرت ﷺ نے یہاں ذوالیدین کے جواب میں جو یہ فرمایا کہ نہ تو میں بھولا ہوں اور نہ نماز میں کمی ہی ہوئی ہے "کیا خلاف واقعہ نہیں ہے؟ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ﷺ کو خبر میں بھی سہو ہو سکتا تھا۔

اس کا جواب مختصر طریقہ پر یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ سے سہو ہونا ان خبروں میں ناممکن ہے جو تبلیغ شرائع، دینی علم اور وحی الہی سے متعلق ہیں نہ کہ تمام خبروں میں۔

دوسرا یہ اشکال وارد ہوتا ہے کہ دورکعت نماز ادا کرنے کے بعد آنحضرت ﷺ سے افعال بھی سرزد ہوئے اور آپ ﷺ نے گفتگو بھی کی مگر اس کے باوجود آپ ﷺ نے از سر نو نماز نہیں پڑھی بلکہ جو رکعتیں باقی رہ گئی تھیں انہیں کو پورا کرلیا۔ اس کی کیا وجہ ہے؟ اس کا جواب علماء نے یہ دیا ہے کہ مفسد نماز وہ کلام وافعال ہیں جو قصداًواقع ہوئے ہوں نہ کہ وہ کلام و افعال جو سہو ہو گئے ہوں جیسا کہ امام شافعی کا مسلک ہے۔ لیکن چوں کہ یہ جواب نہ صرف یہ کہ خود اپنے اندر جھول رکھتا ہے بلکہ حنفیہ کے مسلک کے مطابق بھی نہیں ہے، کیوں کہ ان کے ہاں مطلقاً کلام مفسد صلوٰۃ ہے خواہ قصداً صادر ہوا ہو یا سہواً۔ اس لئے علماء حنفیہ کے نزدیک اس اشکال کا جواب یہ دیا جاتا ہے کہ یہ واقعہ اس وقت کا ہے جب کہ نماز میں کلام اور افعال کا جواز منسوخ نہیں ہوا تھا۔ حضرت امام احمد کا مسلک بھی یہی ہے کہ نماز میں کلام مطلقاً مفسد صلوۃ ہے خواہ قصداً ہو یا سہو اً،مگر ان کے یہاں اتنی گنجائش بھی ہے کہ نماز میں جو کلام امام یا مقتدی سے نماز کی کسی مصلحت کے پیش نظر صادر ہوا ہو گا وہ مفسد نماز نہیں ہو گا جیسا کہ حد یث  مذکور میں پیش آمدہ  صورت ہے۔ حدیث کے آخری الفاظ کا مطلب یہ ہے کہ اس حدیث کو جب حضرت ابن سیرینؒ لوگوں کے سامنے بیان کر چکے تو ان سے بطریق استفهام اکثرلوگوں نےپوچھا کہ کیا ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ نے ثم سلم بھی کہا تھا ،گویا ان لوگوں کے پوچھنے کا مطلب یہ تھاکہ آنحضرت ﷺ نے سجدہ سہو سلام کے بعد کیاتھا،یا پہلے کیا تھا،ا س کے جواب میں ابن  سیرینؒ  نے کہاہے کہ حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ کی روایت میں تو یہ الفاظ مجھے یاد نہیں پڑتے ، ہاں حضرت عمران ابن حصین  رضی اللہ عنہ نے یہی حدیث مجھ سے روایت کی ہے ان کی روایت میںثُمَّ سَلَّمَ کے الفاظ موجود ہیں جن کا مطلب یہ ہے کہ آپ ﷺ نے سجدہ سہو سلام کے بعد کیا تھا اور میں نے ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ  کی روایت میں ثُمَّ سَلَّمَکے جو الفاظ نقل کئے ہیں وہ عمران ابن حصین ہی کی روایت سے اس جگہ لایا ہوں۔

(از: مظاہر حق، ج:1، ص:653تا 655،  ط: دارالاشاعت کراچی)

مشکاۃ المصابیح میں ہے:

"وعن ابن سيرين عن أبي هريرة قال: صلى بنا رسول الله صلى الله عليه وسلم ‌إحدى ‌صلاتي ‌العشي - قال ابن سيرين سماها أبو هريرة ولكن نسيت أنا قال فصلى بنا ركعتين ثم سلم فقام إلى خشبة معروضة في المسجد فاتكأ عليها كأنه غضبان ووضع يده اليمنى على اليسرى وشبك بين أصابعه ووضع خده الأيمن على ظهر كفه اليسرى وخرجت سرعان من أبواب المسجد فقالوا قصرت الصلاة وفي القوم أبو بكر وعمر رضي الله عنهما فهاباه أن يكلماه وفي القوم رجل في يديه طول يقال له ذو اليدين قال يا رسول الله أنسيت أم قصرت الصلاة قال: «لم أنس ولم تقصر» فقال: «أكما يقول ذو اليدين؟» فقالوا: نعم. فتقدم فصلى ما ترك ثم سلم ثم كبر وسجد مثل سجوده أو أطول ثم رفع رأسه وكبر ثم كبر وسجد مثل سجوده أو أطول ثم رفع رأسه وكبر فربما سألوه ثم سلم فيقول نبئت أن عمران بن حصين قال ثم سلم. ولفظه للبخاري وفي أخرى لهما: فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم بدل «لم أنس ولم تقصر» : «كل ذلك لم يكن» فقال: قد كان بعض ذلك يا رسول الله."

(‌‌‌‌كتاب الصلاة، باب السهو، ج:1، ص:320، ط:المكتب الإسلامي)

فتح الباری میں ہے:

"قال في آخر حديث أبي هريرة نبئت أن عمران بن حصين قال ثم سلم قوله فقال لم أنس ولم تقصر كذا في أكثر الطرق وهو صريح في نفي النسيان ونفي القصر وفيه تفسير للمراد بقوله في رواية أبي سفيان عن أبي هريرة عند مسلم كل ذلك لم يكن وتأييد لما قاله أصحاب المعاني إن لفظ كل إذا تقدم وعقبها النفي كان نفيا لكل فرد لا للمجموع بخلاف ما إذا تأخرت كأن يقول لم يكن كل ذلك ولهذا أجاب ذو اليدين في رواية أبي سفيان بقوله قد كان بعض ذلك وأجابه في هذه الرواية بقوله بلى قد نسيت لأنه لما نفى الأمرين وكان مقررا عند الصحابي أن السهو غير جائز عليه في الأمور البلاغية جزم بوقوع النسيان لا بالقصر وهو حجة لمن قال إن السهو جائز على الأنبياء فيما طريقه التشريع وإن كان عياض نقل الإجماع على عدم جواز دخول السهو في الأقوال التبليغية وخص الخلاف بالأفعال لكنهم تعقبوه نعم اتفق من جوز ذلك على أنه لا يقر عليه بل يقع له بيان ذلك إما متصلا بالفعل أو بعده كما وقع في هذا الحديث من قوله لم أنس ولم تقصر ثم تبين أنه نسي ومعنى قوله لم أنس أي في اعتقادي لا في نفس الأمر ويستفاد منه أن الاعتقاد عند فقد اليقين يقوم مقام اليقين وفائدة جواز السهو في مثل ذلك بيان الحكم الشرعي إذا وقع مثله لغيره وأما من منع السهو مطلقا فأجابوا عن هذا الحديث بأجوبة فقيل قوله لم أنس نفي للنسيان ولا يلزم منه نفي السهو وهذا قول من فرق بينهما وقد تقدم رده ويكفي فيه قوله في هذه الرواية بلى قد نسيت وأقره على ذلك وقيل قوله لم أنس على ظاهره وحقيقته وكان يتعمد ما يقع منه من ذلك ليقع التشريع منه بالفعل لكونه أبلغ من القول وتعقب بحديث بن مسعود الماضي في باب التوجه نحو القبلة ففيه إنما أنا بشر أنسى كما تنسون فأثبت العلة قبل الحكم وقيد الحكم بقوله إنما أنا بشر ولم يكتف بإثبات وصف النسيان حتى دفع قول من عساه يقول ليس نسيانه كنسياننا فقال كما تنسون وبهذا الحديث يرد أيضا قول من قال معنى قوله لم أنس إنكار اللفظ الذي نفاه عن نفسه حيث قال إني لا أنسى ولكن أنسى وإنكار اللفظ الذي أنكره على غيره حيث قال بئسما لأحدكم أن يقول نسيت آية كذا وكذا وقد تعقبوا هذا أيضا بأن حديث إني لا أنسى لا أصل له فإنه من بلاغات مالك التي لم توجد موصولة بعد البحث الشديد وأما الآخر فلا يلزم من ذم إضافة نسيان الآية ذم إضافة نسيان كل شيء فإن الفرق بينهما واضح جدا وقيل إن قوله لم أنس راجع إلى السلام أي سلمت قصدا بانيا على ما في اعتقادي أني صليت أربعا وهذا جيد وكأن ذا اليدين فهم العموم فقال بلى قد نسيت وكأن هذا القول أوقع شكا احتاج معه إلى استثبات الحاضرين."

(باب يكبر في سجدتي السهو، ج:3، ص:101، ط:السلفية - مصر)

 الکوکب الدراریّ فی شرح البخاری میں ہے:

"عن أبي هريرة: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم انصرف من اثنتين، فقال له ذو اليدين: ‌أقصرت ‌الصلاة، ‌أم ‌نسيت يا رسول الله؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «أصدق ذو اليدين» فقال الناس: نعم، فقام رسول الله صلى الله عليه و سلم فصلى اثنتين أخريين ثم سلم ثم كبر فسجد مثل سجوده، أو أطول ... قوله: (من اثنتين) أي من ركعتين اثنتين في الصلاة الرباعية و (ذو اليدين) اسمه الخرباق بكسر المعجمة و سكون الراء و بالموحدة و القاف تقدم في باب تشبيك الأصابع في المسجد و (قصرت) بلفظ المعروف و المجهول. قوله: (أصدق) فإن قلت: السؤال عن الصدق و الكذب إنما يتوجه على الخير و ذو اليدين لم يصدر منه خبر بل استفهام. قلت هذا الاستفهام سؤال عن سبب تغيير وضع الصلاة ونقص ركعاتها فكأنه قال أصدق في النقص الذي هو سبب السؤال وإنما حصر فيهما لأن السبب لا يخلو إما أن يكون من الله تعالى وإما من الرسول. قوله: (فصلى) فإن قلت: كيف يصح البناء على الركعتين."

(‌‌‌‌‌‌كتاب الأذان، ‌‌باب: هل ياخذ الإمام إذا شك بقول الناس، ج:5، ص:90، ط:دار إحياء التراث العربي)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144502101410

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں