بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

سجدہ سہو واجب ہونے سے متعلق ضابطہ


سوال

سجدہ سہو کس کس حالت میں کرنا پڑتا ہے؟  اگر کوئی قاعدہ ہے تو وہ بھی بتائیں۔

جواب

سجدہ سہو کے واجب ہونے کے لیے فقہاء نے چند اصول بیان فرمائے ہیں، ان سب قواعد و ضوابط کا حاصل یہ ہے کہ:

’’  اگر کسی شخص سے بھول کر نماز میں کوئی واجب چھوٹ جائے، یا نماز کے واجبات اور فرائض میں سے کسی واجب یا فرض کی ادائیگی میں تاخیر ہوجائے،  یاکسی فرض کو پہلے ادا کردے (یعنی ارکان کی ترتیب بدل دے، جو کہ واجب ہے) یا تکرار کے ساتھ اداکرے یاکسی واجب کو تبدیل کردے  ان صورتوں میں سجدہ سہو واجب ہوجاتاہے‘‘. سجدہ سہو کی ادائیگی سے اس نقصان کی تلافی ہوجاتی ہے۔

فتاوی ہندیہ میں ہے :

"وفي الولوالجية: الأصل في هذا أن المتروك ثلاثة أنواع: فرض وسنة وواجب، ففي الأول أمكنه التدارك بالقضاء يقضي وإلا فسدت صلاته، وفي الثاني لاتفسد؛ لأن قيامها بأركانها وقد وجدت، ولايجبر بسجدتي السهو، وفي الثالث: إن ترك ساهيًا يجبر بسجدتي السهو وإن ترك عامدًا لا، كذا التتارخانية. وظاهر كلام الجم الغفير أنه لايجب السجود في العمد، وإنما تجب الإعادة جبرًا لنقصانه، كذا في البحر الرائق". (4/101)

وفیہ ایضاً:

"ولايجب السجود إلا بترك واجب أو تأخيره أو تأخير ركن أو تقديمه أو تكراره أو تغيير واجب بأن يجهر فيما يخافت، وفي الحقيقة وجوبه بشيء واحد وهو ترك الواجب، كذا في الكافي". (4/102)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144205201216

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں