بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

سجدہ پر قدرت نہ رکھنے کی صورت میں قیام کا حکم


سوال

جمہور فقہاء احناف کے نزدیک اگر ایک شخص سجدہ پر قادر نہ ہو عذر کی وجہ سے تو اس شخص پر قیام کرنا فرض ہے یا نہیں ؟زید کامؤقف ہے کہ جو شخص سجدہ پر قادر نہیں اس سے قیام ساقط ہو جاتا ہے کیونکہ قیام موقوف ہے سجدہ پر یہی قول عند الاحناف مفتٰی بہ ہے، جب کہ بکر کامؤقف ہےکہ اس شخص پر قیام کرنا فرض ہے کیونکہ قیام کرنا علیحدہ فرض ہے اور سجدہ کرنا علیحدہ فرض ہے ،ایک فرض کے ساقط ہونے کی وجہ سے دوسرا فرض ساقط نہیں ہوتا ،تحقیقی بات کی رہنمائی فرمائیں ۔

2) قومہ سے سجدہ کی طرف جاتے ہوئےہاتھوں کی کیفیت کا مسنون طریقہ کیا ہے یعنی ہاتھوں کو سیدھا چھوڑنا چاہیے یا گھٹنوں پر رکھ کر جانا چاہیے؟تلاش کے بعد حدیث نہیں ملی رہنمائی فرمائیں۔

جواب

 صورتِ مسؤلہ میں زید کا مؤقف درست ہے اور عندالاحناف مفتی بہ قول بھی یہی ہے کہ ، جو شخص زمین پر سجدہ کرنے پر قادر نہ ہو ا س کے لیے قیام پر قدرت ہونے کے باوجود قیام فرض نہیں ہےاس لیے کہ نفس ِ قیام  قربت کے لیے مشروع نہیں بلکہ یہ سجدے کاوسیلہ ہےجو اصل قربت ہے ، لہٰذا اگر  ایسا شخص کرسی پر یا زمین پر نماز ادا کر رہاہو تو اس کے لیے دونوں صورتیں جائز ہیں: قیام کی حالت میں قیام کرے اور بقیہ نماز بیٹھ کر ادا کرے یا مکمل نماز بیٹھ کر بغیر قیام کے ادا کرے، البتہ دوسری صورت یعنی مکمل نماز بیٹھ کر ادا کرنا ایسے شخص کے لیے زیادہ بہتر ہے۔

2) قومہ سے سجدہ کی طرف جاتے ہوئے ہاتھوں  کو گھٹنوں پر  رکھ کر جانا  چاہیے ۔ 

فتاوی شامی میں  ہے:

"وفي الذخيرة: رجل بحلقه خراج إن سجد سال وهو قادر على الركوع والقيام والقراءة يصلي قاعداً يومئ؛ ولوصلى قائماً بركوع وقعد وأومأ بالسجود أجزأه، والأول أفضل؛ لأن القيام والركوع لم يشرعا قربةً بنفسهما، بل ليكونا وسيلتين إلى السجود."

(کتاب الصلوۃ ،باب صلوۃ المریض( 97/2)ط:ایچ ایم سعید)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وکذا لوعجز عن الرکوع والسجود وقدر علی القیام فالمستحب أن یصلي قاعداً بایماء وان صلی قائماً بایماء جاز عندناهكذا في فتاوى قاضي خان."

(کتاب الصلوۃ الباب الرابع عشر (136/1) ط مکتبہ ماجدیہ کوئٹہ)

درمختار میں ہے"

"من تعذر عليه القيام) أي كله (لمرض) بأن (خاف زيادته أو بطء برئه بقيامه أو دوران رأسه أو وجد لقيامه ألما شديدا (صلى قاعدا)  على المذهب لأن المرض أسقط عنه الأركان فالهيئات أولى (وإن تعذرا) ليس تعذرهما شرطا بل تعذر السجود كاف (لا القيام أومأ (قاعدا) وهو أفضل من الإيماء قائما لقربه من الأرض."

(کتاب الصلوۃ باب صلوۃ المریض (95/2) ط ایچ ایم سعید)

معارف السنن میں ہے"

"وانما یرید جعل  الیدین علی الرکبتین ،حتی یصیر شیئا واحدا،ولم ار فی لفظہ ذکر الارض فالمراد وضع الیدین علی موضعھما،وھماالرکبتان فانہ لا موضع لھمافی حین الانحطاط،وبین السجدتین والقعدۃ الرکبتان ،ولایرد ان البروک فی اللغۃ الجثو علی الرکب ،فانہ یرید ھھناتقدیم الیدین علی الرجلین الخ : قال الراقم،وحاصل کلام الشیخ رحمہ اللہ ،ان المامور بہ ،ھو موضع الیدین علی الرکبتین قبل وضع الرکبتین علی الارض ،لا وضع الیدین علی الارض قبل الرکبتین ،وھذا ھو غرض حدیث ابی ھریرۃ رضی اللہ عنہ."

(کتاب الصلوۃ ،تحقیق معنی الرکبۃ وبروک الجمل ،:34/3: ط مجلس الدعوۃ والتحقیق بنوری ٹاؤن کراچی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144308100848

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں