بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

سجدہ تلاوت کے واجب ہونے کی دلیل


سوال

سجدہ تلاوت سنت ہے یا واجب؟ اگر واجب ہے تو  حدیث یا قرآن سے حوالہ دیں!

جواب

آیتِ سجدہ کی تلاوت سے یا اسے سننے سے سجدہ تلاوت واجب  ہوتاہے، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رسول اللہ ﷺ سے نقل کیا ہے کہ :

” جب انسان آیت سجدہ کی تلاوت کرتا ہے اور سجدہ کرتا ہے تو شیطان  روتے ہوئے  اس سے  دور ہوجاتا ہے اور کہتا ہے کہ : انسان کو سجدہ کا حکم دیا گیا اور اس نے سجدہ کیا تو اس  کے لیے جنت ہے اور مجھے سجدہ کا حکم دیا گیا اور میں نے سجدہ  نہیں کیا  تو میرے لیے جہنم ہے۔“

اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے یہ واقعہ نقل فرمایا اور اس پر کوئی نکیر نہیں کی، گویا اس واقعے  کی تصدیق کی، اور اس میں اس بات کی دلیل ہے کہ  ابن آدم کو  سجدہ کا حکم دیا گیا ہے اور حکم جب مطلق ہوتو وہ ”وجوب“ کے ہے ہوتا ہے۔

نیز اللہ  تعالیٰ نے  قرآن مجید میں ان لوگوں کی مذمت کی  جو  سجدہ نہیں کرتے اور مذمت اور عقاب کا مستحق واجب کو چھوڑنے پر ہوتا ہے، اور  اور    جہاں قرآن میں اللہ تعالیٰ نے سجدہ  (تلاوت) کا حکم دیا ہے،   ان میں  بعض مواقع ایسے ہیں  جہاں سجدہ کرنے کا حکم ہے اور اس کی تاکید ہے، اور بعض مواقع ایسے ہیں کہ جہاں کفار کے  تکبر کی بنیاد پر سجدہ کرنے کے  انکار کی  خبر ہے اور اس موقع پر سجدہ کرنے میں ان کی مخالفت ہوگی جس کا ہمیں حکم ہے،  اور  بعض مواقع پر فرماں برداروں کی اطاعت اور خشوع کی خبر ہے،اور ایسے لوگوں کی اتباع کا ہمیں حکم ہے۔

 نیز حضرت عثمان ، حضرت علی، حضرت عبد اللہ بن  مسعود، حضرت عبد اللہ بن عباس، حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے  بھی  مختلف الفاظ کے ساتھ یہ مروی ہے کہ   آیتِ سجدہ کی تلاوت کرنے والے ، اس کو سننے والے وغیرہ پر سجدہ تلاوت  واجب ہے۔

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (1 / 180):

" أما الأول فقد قال أصحابنا: إنها واجبة، وقال الشافعي: إنها مستحبة وليست بواجبة واحتج بحديث الأعرابي حين علمه رسول الله صلى الله عليه وسلم الشرائع، فقال: هل علي غيرهن؟ قال: لا إلا أن تطوع فلو كانت سجدة التلاوة واجبة لما احتمل ترك البيان بعد السؤال، وعن عمر - رضي الله عنه - أنه تلا آية السجدة على المنبر وسجد ثم تلاها في الجمعة الثانية فتشوف الناس للسجود فقال: أما إنها لم تكتب علينا إلا أن نشاء.

(ولنا) ما روى أبو هريرة - رضي الله عنه - عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال: «إذا تلا ابن آدم آية السجدة فسجد اعتزل الشيطان يبكي ويقول: أمر ابن آدم بالسجود فسجد فله الجنة وأمرت بالسجود فلم أسجد فلي النار» ، والأصل أن الحكيم متى حكى عن غير الحكيم أمرا ولم يعقبه بالنكير يدل ذلك على أنه صواب فكان في الحديث دليل على كون ابن آدم مأمورا بالسجود ومطلق الأمر للوجوب ولأن الله تعالى ذم أقواما بترك السجود فقال: {وإذا قرئ عليهم القرآن لا يسجدون}[الانشقاق: 21] وإنما يستحق الذم بترك الواجب ولأن مواضع السجود في القرآن منقسمة منها ما هو أمر بالسجود وإلزام للوجوب كما في آخر سورة القلم، ومنها ما هو إخبار عن استكبار الكفرة عن السجود فيجب علينا مخالفتهم بتحصيله، ومنها ما هو إخبار عن خشوع المطيعين فيجب علينا متابعتهم لقوله تعالى {فبهداهم اقتده} [الأنعام: 90] وعن عثمان، وعلي، وعبد الله بن مسعود، وعبد الله بن عباس وعبد الله بن عمر - رضي الله عنهم - أنهم قالوا: السجدة على من تلاها، وعلى من سمعها، وعلى من جلس لها على اختلاف ألفاظهم وعلى كلمة إيجاب.

وأما حديث الأعرابي ففيه بيان الواجب ابتداء لا ما يجب بسبب يوجد من العبد ألا ترى أنه لم يذكر المنذور وهو واجب وأما قول عمر - رضي الله عنه - فنقول بموجبه: إنها لم تكتب علينا بل أوجبت، وفرق بين الفرض والواجب على ما عرف في موضعه".

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144211201091

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں