بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

29 شوال 1445ھ 08 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

سجدہ سہو کے لیے امام کو لقمہ دینا


سوال

کیا امام کوسجدۂ  سہو کے لیے لقمہ دے سکتے ہیں؛ جب کہ قوی امکان ہو کہ امام سجدۂ  سہو کرنا بھول رہا ہے؟

جواب

اگر نماز میں سجدۂ سہو لازم ہوجائے (مثلاً  کوئی واجب رہ جائے، یا کسی واجب یا فرض میں تاخیر ہوجائے یا تقدیم وتاخیر ہوجائے )    تو سجدۂ سہو کا وقت  قعدۂ اخیرہ میں تشہد کے بعد ہے، اگر  امام اس میں سجدہ کرنا بھول جائے اور سلام پھیر لے تو  اگر اس نے سلام کے بعد کسی سے بات نہیں کی اور سینہ قبلہ سے نہیں پھیرا تو یاد آتے ہی دو سجدہ کرے پھر بیٹھ کر التحیات، درود شریف اور دعا پڑھ کر سلام پھیر دے تو اس کی نماز ہوجائے گی۔

لہذا اگر امام پر سجدہ سہو لازم ہو  اور مقتدی کو قرائن (مثلاً  امام کے مسائل سے لاعلم ہونے یا آخری قعدہ میں تشہد کی  مقدار وقت گزرنے کے باوجود سجدہ سہو کے لیے سلام نہ پھیرنے) سے اس بات کا اندازا  ہوجائے کہ امام سجدہ سہو نہیں کرے گا تو مقتدی کے لیے سلام سے پہلے امام کو لقمہ دینا درست نہیں ہے، مقتدی کو  چاہیے کہ اگر امام ایک سلام پھیرنے کے بعد بھی سجدہ سہو نہ کرے اور دوسرا سلام پھیرنے لگے تو  اس وقت مقتدی امام کو لقمہ دے کر سجدہ سہو کی طرف متوجہ کرے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 621):

"واحترز بقصد الجواب عما لو سبح لمن استأذنه في الدخول على قصد إعلامه أنه في الصلاة كما يأتي، أو سبح لتنبيه إمامه فإنه وإن لزم تغييره بالنية عندهما إلا أنه خارج عن القياس بالحديث الصحيح: «إذا نابت أحدكم نائبة وهو في الصلاة فليسبح»"۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 622):

"(بخلاف فتحه على إمامه) فإنه لايفسد (مطلقاً) لفاتح وآخذ بكل حال". فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144109201015

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں