بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

سیدہ بیوی جب نا فرمان ہو اسے سمجھانا چاہیے


سوال

میرے ایک دوست ہے، اس کی بیوی بہت بد اخلاق ہے، گھر کے کام کاج نہیں کرتی اور شوہر کو اذیت دیتی ہے لیکن اس (بیوی)میں یہ خصوصیت ہے کہ سیدہ ہے، تو اس وجہ سے شوہر ان کو کچھ نہیں کہتا جب کہ شوہر عالم بھی ہے، میں ان کو کہتا ہو کہ ایسا بھی نہیں ہے کہ بیوی آپ سے بد اخلاقی کرے  اور آپ کچھ نہ  کہیں، اس بارے میں رہنمائی فرمائیں؟کہ  جب بیوی بد زبان اور  بد اخلاق ہو تو  تو بیوی کے سمجھانے میں کیا طریقہ اپنانا چاہیے اور  کیا  بیوی کے سیدہ ہونے کی وجہ سے شوہر کی لاپرواہی درست ہے؟

جواب

 ازدواجی زندگی پرسکون اور خوش گوار  ہونے کے لیے ضروری ہے کہ میاں بیوی ایک دوسرے کے حقوق ادا کریں،  نبی کریم ﷺ نے شوہرکو اپنی اہلیہ کے ساتھ حسنِ سلوک کی تلقین فرمائی ہے، چناں چہ ارشاد نبوی ہے: "تم میں سے بہتر وہ شخص ہے جو اپنی گھر والی کے ساتھ اچھا ہو اور میں اپنی گھر والی کے ساتھ تم میں سے سب سے بہتر ہوں"، دوسری جانب بیوی کو بھی اپنے شوہر کی اطاعت اور فرماں برداری کا حکم دیا ، ارشاد نبوی ہے: " (بالفرض) اگر میں کسی کو کسی کے سامنے سجدہ کرنے کا حکم دیتا تو بیوی سے کہتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے۔"

اگر کسی شخص کی بیوی نافرمان ہو چاہیے وہ سیدہ ہو یا غیر سیدہ توقرآنِ کریم میں سورۂ نساء کی آیت  34 میں  اللہ تعالیٰ نے نافرمان بیوی کی اصلاح کے علی الترتیب تین طریقے ذکر فرمائے ہیں ،لہذا سائل کے دوست کو چاہیے کہ اپنی بیوی کے اصلاح ان طریقوں کے مطابق کرے اور ان سے لا پر واہی نہ برتے۔ بیوی کی اصلاح کے علی الترتیب تین طریقے یہ ہیں۔۔۔

یعنی عورت اگر نافرمان ہے یا اس کی جانب سے نافرمانی کااندیشہ ہے، تو پہلا درجہ اصلاح کا یہ ہے کہ نرمی سے اس کو سمجھائے ،اگربیوی  محض سمجھانے سے باز نہ آئے، تو دوسرا درجہ یہ ہے کہ  شوہر اپنا بستر علیحدہ کر دے، تاکہ وہ اس علیحدگی سے شوہر کی ناراضی کا احساس کر کے اپنے فعل پر نادم ہو جائے، قرآن کریم میں  "فِي المْضَاجِعِ" کا لفظ ہے، اس کامطلب  فقہاءِ کرام  نے  یہ لکھا ہے کہ جدائی صرف بستر میں ہو، مکان کی جدائی نہ کرے کہ عورت کو مکان میں تنہا چھوڑ دے ،اس سےفساد بڑھنے کا اندیشہ   زیادہ ہے۔ چناں چہ ایک صحابی سے روایت ہے:

’’میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ ہماری بیویوں کا ہم پر کیا حق ہے؟ آپ نے فرمایا: جب تم کھاؤ تو انہیں بھی کھلاؤ اور تم پہنو تو انہیں بھی پہناؤ اور چہرے پر مت مارو، اگر اس سے علیحدگی کرنا چاہو تو صرف اتنی کرو کہ (بستر الگ کر دو) مکان الگ نہ کرو ‘‘۔

اور جوعورت  اس سزا  سے بھی متاثر نہ ہو تو  تیسرے درجہ میں  اس کو معمولی مار مارنے کی بھی اجازت ہے، جس سے اس کے بدن پر اثر نہ پڑے، اور ہڈی ٹوٹنے یا زخم لگنے تک نوبت نہ آئے اور چہرہ پر مارنے کو مطلقاً منع فرما دیا گیا ہے۔

چناں چہ "بخاری شریف"  کی روایت میں ہے:

’’ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کوئی شخص اپنی بیوی کو غلام کی طرح نہ مارے ؛ کیوں کہ یہ بات مناسب نہیں کہ اول تو اسے مارے، پھر اخیر دن اس سے اپنی خواہش پوری  کرے‘‘۔

نیز    خاندان کے بڑوں  یا کسی ایسے محرم کے ذریعہ بیوی کو شوہر کی اطاعت و فرماں برداری کا سبق پڑھوایا  جائے، جن کی بات کا اس پر اثر ہو، امید ہے کہ مذکورہ بالا طرقِ اصلاح سے  بیوی کے رویے میں بہتری آ جائے گی۔

حدیث شریف میں حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:

"و عن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لو كنت آمرًا أحدًا أن يسجد لأحدٍ لأمرت المرأة أن تسجد لزوجها». رواه الترمذي".

(مشكاة المصابيح، كتاب النكاح، باب عشرة النساء ص: 281 ط: قديمي)

"وعن عائشة قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «خيركم خيركم لأهله، وأنا خيركم لأهلي، وإذا مات صاحبكم فدعوه». رواه الترمذي والدارمي". 

(مشكاة المصابيح، كتاب النكاح، باب عشرة النساء ص: 281 ط: قديمي)

فقط وألله اعلم


فتوی نمبر : 144408101591

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں