بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ویلفیئر ٹرسٹ کے تحت کمپیوٹر کورس کرنے کا حکم


سوال

ایک  ویلفیئر ٹرسٹ -جو   غیر اہلِ سنت مسلک والوں کی نگرانی میں ہے-اس کی طرف سے کمپیوٹر کورس کروایا جاتا ہے  جس  میں شمولیت اختیار کرنے والے کو آنے جانے کا کرایہ اور ماہانہ وظیفہ کی سہولت بھی فراہم کی جاتی ہے، تو کیا اس ٹرسٹ میں کمپیوٹر کورس کرنا جائز ہوگا یا نہیں؟ براہِ کرم مکمل رہنمائی فرمائیں۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں مذکورہ ٹرسٹ داخلہ کے وقت امیدواروں سے  اہلِ سنت و الجماعت کے عقائد  کے علاوہ کسی عقیدے کا اقرار و اعتراف نہ کراتا  ہو، اسی طرح مستقبل میں کورس کی تکمیل کے لیے بھی   غلط عقائد  کا پابند نہ بناتا ہو تو  اس میں کمپیوٹر کورس کرنا جائز ہے؛  کیوں کہ کمپیوٹر کورس سیکھنا  ایک مباح کام  ہے، اور جب تک مباح کام کسی غیر شرعی امر کا سبب نہ بنتا ہو اس کے کرنے کی اجازت ہے۔

مرقاۃ شرح مشکاۃ میں ہے:

"(قال) أي: زيد (فما مر بي) أي: مضى علي من الزمان (‌نصف ‌شهر ‌حتى ‌تعلمت) : في معناه مقدر، أي: ما مر بي نصف من الشهر في التعلم، حتى كمل تعلمي، قيل: فيه دليل على جواز تعلم ما هو حرام في شرعنا للتوقي والحذر عن الوقوع في الشر، كذا ذكره الطيبي في ذيل كلام المظهر، وهو غير ظاهر، إذ لا يعرف في الشرع تحريم تعلم لغة من اللغات سريانية، أو عبرانية، أو هندية، أو تركية، أو فارسية، وقد قال تعالى: {ومن آياته خلق السماوات والأرض واختلاف ألسنتكم} [الروم: 22] ، أي: لغاتكم، بل هو من جملة المباحات، نعم يعد من اللغو، ومما لا يعني، وهو مذموم عند أرباب الكمال، إلا إذا ترتب عليه فائدة، فحينئذ يستحب كما يستفاد من الحديث. (فكان) أي: النبي صلى الله عليه وسلم (إذا كتب إلى يهود) أي: أراد أن يكتب إليهم أو إذا أمر بالكتابة إليهم (كتبت) ، أي بلسانهم (وإذا كتبوا إليه قرأت له) أي: لأجله، وفي نسخة عليه أي: عنده صلى الله عليه وسلم (كتابهم) . أي: مكتوبهم إليه. (رواه الترمذي)".

(كتاب الآداب، باب السلام، 439/8، ط: دار الفكر)

الاشباہ والنظائر میں ہے:

"وذكر قاضي خان في فتاواه إن بيع العصير ممن يتخذه خمرا إن قصد به التجارة فلا يحرم وإن قصد به لأجل التخمير حرم وكذا غرس الكرم على هذا (انتهى) . وعلى هذا عصير العنب بقصد الخلية أو الخمرية. والهجر فوق ثلاث دائر مع القصد، فإن قصد هجر المسلم حرم وإلا لا. والإحداد للمرأة على ميت غير زوجها فوق ثلاث دائر مع القصد، فإن قصدت ترك الزينة والتطيب لأجل الميت حرم عليها، وإلا فلا".

(الفن الأول: القواعد الكلية، القاعدة الثانية: الأمور بمقاصدها، 23، ط: دار الكتب العلمية)

فتاوی عزیزی میں ہے:

سوال: کیا امر مباح حرام ہے جب وسیلہ فعل حرام کا ہو؟

جواب: امرمباح حرام ہو جاتا ہے جب فعل حرام کے لیے وسیلہ ہو، خطابی کا قول ہے کہ:"  كل أمر يتذرع به إلى أمر محظور فهو محظور، جو امر اس عرض سے کیا جائے کہ اس کے ذریعے سے کوئی امر ممنوع صادر ہو تو وہ امر بھی ممنوع ہے"۔

(مسائل بیع، کیا امر مباح حرام کا وسیلہ بننے سے حرام ہو جاتا ہے؟، 559، ناشر: ایچ ایم سعید)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144501100952

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں