بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

سیلاب میں شہید شدہ مسجد کی جگہ تبدیل کرنا


سوال

 ہمارے گاؤں میں ایک مسجد تھی حالیہ سیلاب کی وجہ سے مسجد شہید ہوگئی تھی، اب  وہاں دوبارہ مسجد تعمیر کرنے کے غرض سے کھدائی کی گئی تو لوگوں نے کہا کہ یہاں مسجد چھوٹی پڑرہی ہے،  گھروں کے درمیان مسجد واقع ہونے کی وجہ سے تبلیغی حضرات بھی نہیں آتے اور اگر یہاں مسجد بنائیں گے تو راستے بھی تنگ ہوں گے، الغرض اس طرح کے حیلے بہانے کرکے مسجد کی جگہ تبدیل کی گئی اور تقریبا 500 میٹر دور مسجد کے لیے جگہ مختص کی گئی اور وہاں تعمیر کا آغاز بھی کیا گیا۔

اب سوال یہ ہے کہ کیا اس طرح کرنا شریعت کی رو سے جائز ہے یا نہیں؟ پہلے جو مسجد تھی اس کی اپنی جگہ اور اس کے آس پاس کی جگہ کی شرعی کیا حیثیت ہے؟ بعض لوگ کہتے ہیں کہ پہلے جو مسجد کی جگہ تھی اس پر پختہ دیوار بنادی جائے اور تختی لگادی جائے کہ مسجد کی جگہ ہے اس پر دوسری کوئی چیز تعمیر نہیں ہوسکتی؟ کیا مسجد کی جگہ مدرسہ قائم ہوسکتاہے؟ اگر  شریعت کی رُو سےقدیم مسجد کو بحال رکھنا ہے تو وہ اس گاؤں میں مشکل ہے، پہلے مسجد چھوٹی تھی تو وہ بھی صحیح آباد نہیں تھی کبھی جماعت ہوتی تھی تو کبھی نہیں،  الغرض کبھی دو بندے ہوتے کبھی تین تو کبھی پانچ؟ مسجد کی جگہ تبدیل کرنے میں ایک بات مستقبل کے حوالے سے بھی تھی کہ مستقبل میں آبادی بڑھے گی تو مسجد میں جگہ کم پڑجائے گی اتنا خرچہ کررہے تو مسجد بڑی ہو تاکہ مستقبل میں مسائل نہ ہوں۔

جواب

واضح رہے کہ جو جگہ ایک بار مسجد بن جائے  تو وہ قیامت تک کے لیے مسجد ہی کے حکم میں ہوتی ہے، اس کو دوسری جگہ منتقل کرنا جائز نہیں  ہوتا۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر سیلاب کی وجہ سے مذکورہ مسجد شہید ہوگئی تھی تو اسی جگہ دوبارہ مسجد تعمیر کرنی چاہیے تھی، مسجدکی جگہ تبدیل نہیں کرنی چاہیےتھی۔اب  اگرقریب میں  دوسری جگہ مسجد کے لیے مختص کرکے تعمیرشروع کردی گئی ہے تو اسے مکمل کیا جائے اور  سابقہ مسجدکی بھی تعمیر کرنے کی کوشش کی جائے اور دونوں کو آباد کرنے کی فکر کی جائے، اگر فی الحال ایسا کرنا ممکن نہیں تو عارضی طور پر اس کے ارد گرد چار دیواری تعمیر کردی جائے تاکہ بے ادبی سے محفوظ رہے، اس جگہ مدرسہ بنانا بھی جائز نہیں تاہم مسجد کے طرز پر دوبارہ تعمیر کرنے یا چار دیواری بنانے کے بعد اس میں عارضی طور پر قرآن کی تعلیم کا سلسلہ شروع کرنے کی گنجائش ہوگی۔

الغرض اب  دونوں ہی مسجدیں آباد رکھنے کی کوشش کی جائے، اگر ایک ہی وقت میں دونوں مسجدیں آباد نہیں رکھی جاسکتیں تو غیر آباد مسجد کو بے حرمتی سے محفوظ رکھنے کا لازمی انتظام کیا جائے۔   

فتاوی شامی میں ہے:

"(ولو خرب ما حوله واستغني عنه، يبقى مسجدا عند الإمام والثاني) أبدا إلى قيام الساعة، (وبه يفتي) حاوي القدسی.وفي الرد : (قوله: ولو خرب ما حوله) أي ولو مع بقائه عامرا وكذا لو خرب وليس له ما يعمر به وقد استغنى الناس عنه لبناء مسجد آخر (قوله: عند الإمام والثاني) فلا يعود ميراثا ولا يجوز نقله ونقل ماله إلى مسجد آخر، سواء كانوا يصلون فيه أو لا، وهو الفتوی، حاوي القدسي، وأكثر المشايخ عليه، مجتبى، وهو الأوجه، فتح. اه. بحر."

(کتاب الوقف، مطلب فيما لوخرب المسجد أو غيرہ،4/ 358، ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144404100309

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں