بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

سید الاستغفار سے حقوق العباد بھی معاف ہوں گے؟ کبیرہ گناہوں کی بخشش قرآن وحدیث سے؟ نماز چھوڑنے والا جنت میں جائےگا؟


سوال

1)  سیدالاستغفار کے متعلق حدیث شریف میں آیاہے کہ جو شخص پڑھے  اس دن اگر مر جائے تو جنت واجب ہے،  توکیا حقوق العباد بھی معاف ہے؟

 2) دوسرا مسئلہ گناہ کبیرہ کرنے والے  کے لیے بخشش ہے اس پر قرآن اور حدیث کے دلائل؟

 . . 3)نماز چھوڑنے والےکو کافر بتایا گیا، تو کیا کوئی شخص جس کا عقیدہ تو صحیح ہو مگر نماز نہ پڑھتا ہو،  جنت جاسکتا ہے ؟

جواب

1-           حقوق العباد معاف نہیں ہوں گے۔

"(إلا الدين) : استثناء منقطع، ويحوز أن يكون متصلا ; أي الدين الذي لا ينوي أداءه. قال التوربشتي: أراد بالدين هنا ما يتعلق بذمته من حقوق المسلمين....وقال النووي: فيه تنبيه على جميع حقوق الآدميين، وأن الجهاد والشهادة وغيرهما من أعمال البر لا يكفر حقوق الآدميين، وإنما يكفر حقوق الله."

(مرقاة المفاتیح: كتاب الجهاد (6/ 2466)،ط۔ دار الفكر، بيروت، الطبعة: الأولى، 1422هـ - 2002م)

عمدۃ القاری میں ہے:

"قوله: (غفر له ما تقدم من ذنبه) يعني: من الصغائر دون الكبائر، كذا هو مبين في مسلم، وظاهر الحديث يعم جميع الذنوب، ولكنه خص بالصغائر، والكبائر إنما تكفر بالتوبة وكذلك مظالم العباد."

(عمدة القاري شرح صحيح البخاري للعيني: «كتاب الوضوء»، «باب الوضوء ثلاثا ثلاثا» (3/ 7)، ط. دار إحياء التراث العربي، بيروت

2-                          شرک کے علاوہ  گناہ کبیرہ کرنے والے کے لئے بخشش قرآن وحدیث سے ثابت ہے۔ قرآن کریم ہے:

"إِنَّ اللَّهَ لَا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَلِكَ لِمَنْ يَشَاءُ وَمَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدِ افْتَرَى إِثْمًا عَظِيمًا" (سورة النساء:48)

"بیشک اللہ نہیں بخشتا اس کو جو اس کا شریک کرے، اور بخشتا ہے اس سے نیچے کے گناہ جس کے چاہے،اور جس نے  شریک ٹھہرایا اللہ کا اس نے بڑا طوفان باندھا۔"

" إِنَّ اللَّهَ لَا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَلِكَ لِمَنْ يَشَاءُ وَمَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا بَعِيدًا "(سورة النساء: 116)

"بیشک اللہ نہیں بخشتا اس کو جو اس کا شریک کرے کسی کو، اور بخشتا ہے اس کے سوا جس کو چاہے، اور جس نے شریک ٹھہرایا  اللہ کا وہ بہک کر دورجا پڑا۔"

"عن أبي ذر رضي الله عنه قال:  قال رسول الله صلى الله عليه و سلم: آتاني آت من ربي، فأخبرني أو قال: بشرني أنه من مات من أمتي لا يشرك بالله شيئا دخل الجنة،  قلت: وإن زنى وإن سرق؟ قال: وإن زنى وإن سرق".

أخرجه البخاري في باب في الجنائز ومن كان آخر كلامة لا إله إلا الله (1/ 417) برقم (1180)، ط. دار ابن كثير ، اليمامة - بيروت،الطبعة الثالثة: 1407 = 1987)

"حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ :(خواب میں) میرے پاس میرے رب کی طرف سےایک آنے والا (فرشتہ) آیا،  اس نے مجھے خبر دی ، یا آپ صلي اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا کہ اس نے مجھے خوشخبری دی کہ:  میری امت میں سے جو کوئی اس حال میں مرے کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ  کوئی شریک نہ ٹھہراتا ہو  تو وہ جنت میں جائے گا ۔ اس پر میں نے پوچھا:  اگرچہ اس نے زنا کیا ہو ، اگرچہ اس نے چوری کی ہو ؟ تو رسول اللہ صلي اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ:  ہاں اگرچہ  اس نے زنا کیا ہو، اگرچہ اس نے چوری کی ہو ۔ "

3-     اور اگر کوئی شخص نماز چھوڑنے کو حلال اور جائز نہیں سمجھتا، بلکہ محض سستی کی وجہ سے نماز ترک کر دیتا ہے تو ایسا آدمی نماز چھوڑنے کی وجہ سے کافر نہ ہو گا، البتہ گناہ کبیرہ مرتکب ہو گا،اور گناہ کبیرہ کا مرتکب شخص جنت جا سکتا ہے۔باقی    یہ حدیث کہ:" جس نے نماز چھوڑی اس نے کفر کیا" کا مطلب یہ ہے کہ: ایسا شخص کافروں والے سزا کا مستحق ہوا،  یا وہ کفر کے قریب ہوا، یا مطلب یہ ہے کہ  اس نےکافروں جیساعمل کیا، یا  اس پر کفر کا خطرہ ہے، یا  ڈانٹ ڈپٹ اور دھمکی پر محمول ہے، تاکہ وہ  نماز ترک کرنا چھوڑدے۔  یا حدیث کا مطلب یہ ہے کہ  جس نے نماز کی فرضیت کا انکار کیا تو وہ کافر ہوگیا۔

مرقاۃ المفاتیح میں ہے:

"«من ترك الصلاة متعمدا فقد كفر» ". أي: استحق عقوبة الكفر كذا فسره الشافعي. قلت: الحديث السابق نص في الحصر المفيد لنفي قتله، فلا يثبت إثباته بمثل هذا الاستدلال مع وجود غيره من الاحتمال، فإنه فسر بأنه قارب الكفر، أو شابه عمل الكفرة، أو يخشى عليه الكفر، أو المراد بالكفر الكفران، أو محمول على ما إذا استحل تركه أو نفى فرضيته، أو على الزجر الشديد والتهديد والوعيد".

(مرقاة المفاتيح: كتاب القصاص (6/ 2258)، ط.دار الفكر، بيروت ، الطبعة الأولى: 1422هـ = 2002م)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144403101407

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں