بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

سائیڈ سے بال کاٹنے والے نائی کی کمائی کا حکم


سوال

جو نائی سائیڈ سے بال کاٹتے ہیں ان کی کمائی بھی حرام ہے؟

جواب

واضح رہے کہ بالوں کی حد مقرر کرنے کے لیے کانوں کے اطراف سے کچھ تھوڑے سے بال کاٹنے کی گنجائش ہے؛ تاکہ سر کے بال متعین ہوجائیں، لیکن اس سے زیادہ بال کاٹنا(کہ سر کے اس حصے اور باقی سر کے بال میں واضح فرق نظر آئے) جائز نہیں ہے، اور یہ قزع میں داخل ہوگا،جس کی احادیث میں ممانعت آئی ہے، لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر کوئی نائی اطراف (سائیڈوں) سے بال اس طرح کاٹتا ہے کہ سر کے اس حصے کے بال کم اور باقی سر کے بال زیادہ لگ رہے ہو تو اس طرح کے بال کاٹنا ناجائز ہے اور اس کی کمائی بھی مکروہ ہے، لہذا اس سے اجتناب کرے۔

مشکوۃ المصابیح کی روایت میں ہے :

"وعن نافع عن ابن عمر قال: سمعت النبي صلى الله عليه وسلم ينهى عن ‌القزع. قيل لنافع: ما ‌القزع؟ قال: يحلق بعض رأس الصبي ويترك البعضوألحق بعضهم التفسير بالحديث."

(‌‌‌‌كتاب اللباس، باب الترجل، الفصل الأول،رقم الحدىث، ج:  2، ص 1262، ط: المكتب الإسلامي )

فتاوی ہندیہ میں ہے :

"يكره القزع، وهو أن يحلق البعض ويترك البعض قطعاً مقدار ثلاثة أصابع، كذا في الغرائب".

(كتاب الكراهية، الباب التاسع عشر في الختان والخصاء وحلق المرأة شعرها ووصلها شعر غيرها، ج: 5، ص: 357، ط: دارالفكر)

المحیط البرہانی میں ہے:

"لا تجوز الإجارة على شيء من اللهو والمزامير والطبل وغيره؛ لأنها معصية والإجارة على المعصية باطلة."

(كتاب الإجارات، الفصل الخامس عشر: في بيان ما يجوز من الإجارات، وما لا يجوز (7/ 482)،ط. دار الكتب العلمية، بيروت ، الطبعة: الأولى، 1424 هـ- 2004 م )

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144507101350

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں