بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

سیدشخص کا اپنے سیدبھائی یا سیدہ بہن کو زکات دینا/ کیا علوی سادات میں داخل ہے؟


سوال

1۔کیا سید شخص اپنے سید بھائی یا اپنی سیدہ بہن کو زکوۃ دے سکتا ہے؟

2۔کیا علوی فیملی کے لوگ سادات کہلوانے کے حق دار ہیں یا نہیں؟

جواب

1۔واضح رہے کہ زکات کی ادائیگی میں شریعتِ مطہر ہ میں   کچھ  آداب وشرائط ہیں جن کی پاسداری ضروری ہے ورنہ انسان کی زکات  کی ادئیگی شرعاً معتبر نہ ہوگی،ان سے میں ایک شرط یہ ہے کہ  زکات اس شخص کو دی جائے جو کہ غیرسید ہو؛ کیوں کہ زکات اور صدقاتِ واجبہ   لوگوں کے مالوں کا میل کچیل ہیں، ان کے ذریعہ لوگوں کے نفوس اور اموال پاک ہوتے ہیں اس لیے سید کو زکات دینا اور اس کا زکات لینا شرعاً جائز نہیں، لہٰذا صورتِ مسئولہ میں سیدشخص اپنے سید بھائی یا سیدہ بہن کو  زکات نہیں دے سکتا،ہاں اگر کوئی سید یا سیدہ محتاج اور ضرورت مندہوتو زکات اور صدقاتِ واجبہ کے علاوہ نفلی صدقات  کی مدمیں ان کے ساتھ تعاون کیا جاسکتاہے   اور یہ بڑا اجروثواب کا کام ہے اور حضور اکرم ﷺ کے ساتھ محبت کی دلیل ہے۔

2۔ جولوگ اپنے ساتھ  علوی کی نسبت لگاتے ہیں اگر وہ  لوگ  واقعۃ ً حضرت علی رضی اللہ عنہ، حضرت عباس رضی اللہ عنہ، حضرت جعفر رضی اللہ عنہ یاپھر  حضرت عقیل رضی اللہ عنہ کی اولاد اور ان کی نسل سے ہو تو وہ سادات میں داخل ہیں، لیکن بعد میں یہ اصطلاح خاص ہوگئی  ہے، چناں چہ ہمارے عرف میں ’’سید‘‘  صرف وہ گھرانے  ہیں  جو  حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے صاحب زادگان حضرت حسن و حضرت حسین رضی اللہ عنہما کی اولاد سے ہوں، ان ہی کا لقب  ’’سید‘‘ ہے، اور یہ  ان کی رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے نسبی نسبت کی علامت ہے؛ لہٰذا موجودہ دور میں صرف حضرات حسنین کریمین رضی اللہ عنہما کی نسل سے آنے والے گھرانوں کو  ’’سید‘‘ کہنا چاہیے۔

البحرائق میں ہے:

 ''(قوله:وبني هاشم ومواليهم) أي لا يجوز الدفع لهم ؛ لحديث البخاري: «نحن- أهل بيت - لا تحل لنا الصدقة»، ولحديث أبي داود: «مولى القوم من أنفسهم، وإنا لا تحل لنا الصدقة."

(کتاب الزکاۃ،دفع الزکاۃ الي الأب اوالجد..،ج:2، ص:265، ط: دارالکتب العلمية)

صحیح مسلم میں ہے:

"حدثني زهير بن حرب، وشجاع بن مخلد، جميعًا عن ابن علية، قال زهير: حدثنا إسماعيل بن إبراهيم، حدثني أبو حيان، حدثني يزيد بن حيان، قال: انطلقت أنا وحصين بن سبرة، وعمر بن مسلم، إلى زيد بن أرقم، فلما جلسنا إليه قال له حصين: لقد لقيت يا زيد خيرًا كثيرًا، رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم، وسمعت حديثه، وغزوت معه، وصليت خلفه لقد لقيت، يا زيد خيرًا كثيرًا، حدثنا يا زيد ما سمعت من رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: يا ابن أخي والله لقد كبرت سني، وقدم عهدي، ونسيت بعض الذي كنت أعي من رسول الله صلى الله عليه وسلم، فما حدثتكم فاقبلوا، وما لا، فلاتكلفونيه، ثم قال: قام رسول الله صلى الله عليه وسلم يومًا فينا خطيبًا بماء يدعى خمًا بين مكة والمدينة، فحمد الله وأثنى عليه، ووعظ وذكر، ثم قال: " أما بعد، ألا أيها الناس! فإنما أنا بشر يوشك أن يأتي رسول ربي فأجيب، وأنا تارك فيكم ثقلين: أولهما كتاب الله فيه الهدىوالنور فخذوا بكتاب الله، واستمسكوا به"؛ فحث على كتاب الله ورغب فيه، ثم قال: «وأهل بيتي، أذكركم الله في أهل بيتي، أذكركم الله في أهل بيتي، أذكركم الله في أهل بيتي». فقال له حصين: ومن أهل بيته؟ يا زيد! أليس نساؤه من أهل بيته؟ قال: نساؤه من أهل بيته، ولكن أهل بيته من حرم الصدقة بعده، قال: ومن هم؟ قال: هم آل علي وآل عقيل، وآل جعفر، وآل عباس قال: كل هؤلاء حرم الصدقة؟ قال: نعم".

( کتاب الفضائل،ج:4، ص:1873، رقم الحدیث:2408،دار إحياء التراث العربي۔ ببيروت۔)

 "ترجمہ: ۔۔۔ حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:  رسول اللہ ﷺ نے ایک دن مقامِ (غدیرِ) ’’خم‘‘ پر  جو مکہ و مدینہ کے درمیان ہے، خطبہ دیا، چناں چہ اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کی، اور وعظ و نصیحت فرمائی، پھر فرمایا: اما بعد! آگاہ رہو اے لوگو! میں بھی ایک انسان ہوں،  ممکن ہے کہ میرے رب کا پیغام رساں (موت کا فرشتہ) میرے پاس آئے تو میں اسے لبیک کہوں، اور میں تم میں دو بہت اہم (اور بھاری چیزیں) چھوڑ رہاہوں: پہلی چیز ’’کتاب اللہ‘‘ ہے، اس میں ہدایت اور نور ہے، لہٰذا اللہ کی کتاب کو پکڑ لو اور مضبوطی سے تھام لو؛ پھر آپ ﷺ نے اللہ کی کتاب کے حوالے سے کافی شافی ترغیب ارشاد فرمائی۔ پھر فرمایا: (اور دوسری چیز) میرے اہلِ بیت،  میں تمہیں اپنے اہلِ بیت کے بارے میں اللہ تعالیٰ کے لحاظ (یاد رکھنے) کی تاکید کرتاہوں،  میں تمہیں اپنے اہلِ بیت کے بارے میں اللہ تعالیٰ کے لحاظ (یاد رکھنے) کی تاکید کرتاہوں،  میں تمہیں اپنے اہلِ بیت کے بارے میں اللہ تعالیٰ کے لحاظ (یاد رکھنے) کی تاکید کرتاہوں۔   (یہ سن کر) راوی حدیث حصین رحمہ اللہ نے حضرت زید بن ارقم سے کہا: اہلِ بیت سے مراد کون ہیں؟ اے زید کیا آپ ﷺ کی ازواجِ مطہرات اہلِ بیت میں سے نہیں ہیں؟ (کیوں کہ مذکورہ خطبہ ’’غدیرِ خم‘‘  کے مقام پر درحقیقت حضرت علی رضی اللہ عنہ کے حوالے سے ارشاد فرمایا تھا، اس پس منظر کی وجہ سے راوی نے مذکورہ سوال کیا)  تو حضرت زید بن ارقم نے فرمایا: (ہاں!) آپ ﷺ کی ازواجِ مطہرات اہلِ بیت میں ہیں، لیکن (یہاں مراد) اہلِ بیت (سے) وہ ہیں جن پر رسول اللہ ﷺ کے بعد صدقہ حرام ہے۔ راوی نے پوچھا: وہ کون ہیں؟ حضرت زید رضی اللہ عنہ نے فرمایا: وہ آلِ علی،  آلِ عقیل، آلِ جعفر اور آلِ عباس ہیں۔ راوی نے کہا: کیا ان سب پر صدقہ حرام ہے؟ حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ نے فرمایا: جی ہاں!"

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(قوله: وعلى آله) اختلف في المراد بهم في مثل هذا الموضع؛ فالأكثرون أنهم قرابته صلى الله عليه وسلم الذين حرمت عليهم الصدقة على الاختلاف فيهم، وقيل: جميع أمة الإجابة، وإليه مال مالك، واختاره الأزهري والنووي في شرح مسلم، وقيل غير ذلك، شرح التحرير.وذكر القهستاني: أن الثاني مختار المحققين".

(ج:1، ص:13، ط:سعید)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144508102701

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں