بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ساس کا اپنی بیٹی کو داماد کے پاس بیٹھنے نہ دینا


سوال

 میری ازدواجی زندگی بالکل برباد ہو کر رہ گئی ہے ،جس کی اصل وجہ میری ساس ہے،میری ساس میرے ساتھ رہتی ہے،ان کی عادت ہے کہ وہ کبھی بھی میری زوجہ محترمہ کو میرے پاس نہیں بیٹھنے دیتی، جب بھی میں ان کو اپنے پاس بلاتا ہوں تو وہ کسی نہ کسی بہانے سےمیری زوجہ کو اپنے پاس بلا لیتی ہے، جب شام کو میں تھکا ہواا ڈیوٹی سے گھر آتا ہوں،تو زوجہ محترمہ میرے پاس بیٹھی ہوتی ہے، تب بھی ساس کی کوشش ہوتی ہے کہ کسی طرح اپنے پاس کسی بہانے سے بلا  لیں،میں ساس کی بہت عزت کرتا ہوں، لیکن وہ بلا وجہ تنگ کرتی ہیں، کمرے میں بغیر دستک دئیےہوئے اندر آ جاتی ہے، جس کی وجہ سے ہم اکٹھے نہیں بیٹھ سکتے، سمجھدار ہیں لیکن یہ ان کی عادت ہے،آپ حضرات اس معاملے میں میری صحیح راہ نمائی فرمائیں۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں آپ کی ساس کو چاہیے  کہ اپنے داماد کو اپنا بیٹا سمجھ کراورآپ کو چاہیےکہ اپنےساس کواپنی والدہ سمجھ کرایک دوسرےکےجائزحقوق اورذمہ داریاں بجالائیں،اورآپ کی ساس کوچاہیے کہ آپ (یعنی داماد) کو بے جا تنگ کرنے سےہرطرح گریزکریں، آپ  کی خوشیوں کا خیال رکھیں، آپ دونوں (یعنی داماد اوربیٹی)کےرشتےکوبرقراررکھنےکےہرممکن کوشش کریں،اور اپنی بیٹی کو آپ کے پاس بیٹھنے سے ہرگز منع نہ کریں ،آپ  بھی اُن کی ادب و احترام  ہرحال میں ملحوظ رکھیں،اور انہیں شرعی حدود کا لحاظ رکھتے ہوئے حکمت و مصلحت کے ساتھ خودسمجھائیں،یا خاندان میں سے کسی اور نیکوکار،بزرگ  خواتین کے ذریعے اس سے سمجھا دیں،آپ کی ساس کاایسارویہ اختیارکرنےباجودہرحال میں آپ ان کی اداب ،احترام اورخدمت کی خاطر ان کےساتھ ایک گھرمیں رہنےکی کوشش کریں،ساس پر لازم ہے کہ وہ اپنی بیٹی داماد کے معاملات اور تعلقات میں رکاوٹ نہ ڈالے اگرپھربھی آپ کی ساس اپنےاس رویہ سےبازنہیں آتی،اورآپ کوبلاضرورت اذیت دینےپرمصرہیں،توایسی صورت میں ساس سےعلیحدہ ہوکردوسرے گھرمیں رہائش اختیار کرنے کی گنجائش ہے۔

قرآن مجید میں ہے:

"وَالَّذِیْنَ یُؤْذُوْنَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتِ بِغَیْرِ مَا اكْتَسَبُوْا فَقَدِ احْتَمَلُوْا بُهْتَانًا وَّ اِثْمًا مُّبِیْنًا.(سورة الأحزاب:58)"

"ترجمہ:اور جو لوگ تہمت لگاتے ہیں مسلمان مردوں کو اور مسلمان عورتوں کو بدون گناہ کئے تو اٹھایا انہوں نے بوجھ جھوٹ کا اور صریح گناہ کا۔(بیان القرآن)"

صحیح البخاری میں ہے:

"حدثنا شعبة، عن عبد الله بن أبي السفر، وإسماعيل بن أبي خالد، عن الشعبي، عن عبد الله بن عمرو رضي الله عنهما، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «المسلم من سلم المسلمون من لسانه ويده، والمهاجر من هجر ما نهى الله عنه»."

(باب المسلم من سلم المسلمون من لسانه ويده، ج:1، ص:11، ط: دار طوق النجاة)

شعب الإيمان میں ہے:

"عن جابر قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "‌ليس ‌منا ‌من ‌لم ‌يوقر ‌كبيرنا، ويعرف حق صغيرنا" وقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "إن من إجلال الله إكرام ذي الشيبة المسلم."

(رحم الصغير وتوقير الكبير، ج:13، ص:357، ط: مكتبة الرشد للنشر والتوزيع بالرياض) 

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144508100153

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں