بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

سحری کا افضل وقت


سوال

رمضان المبارک میں سحری کس وقت کرنی چاہیے ؟

جواب

سحری کھانے  کا وقت صبح صادق سے پہلے پہلے کا ہے، رات کو ہی سحری کرکے سوجانا یا صبح صادق سے بہت دیر پہلے سحری کا معمول بنانا درست نہیں ہے، صبح صادق سے اس قدر پہلے سحری بند کردیں کہ یقین ہو کہ صبح ہونے سے پہلے پہلے کھانا بند کردیا گیا ہے۔

فقہاءِ کرام نے لکھا ہے کہ رات کو چھ حصوں میں تقسیم کیا جائے تو آخری چھٹے حصے میں سحری کرنا مسنون (مستحب) ہے، اس سے پہلے کا معمول نہ بنایا جائے، مثلاً رات بارہ گھنٹے کی ہو تو صبح صادق سے پہلے والے دو گھنٹوں میں کسی وقت بھی سحری کرنے سے استحباب پر عمل ہوجائے گا، البتہ صبح صادق کے قریب آخر  وقت میں زیادہ افضل ہوگا۔ تاہم اذان تک نہیں کھاتے رہنا چاہیے، مستند نقشے کے مطابق انتہاءِ سحر کے وقت سے دو چار منٹ پہلے کھانا پینا موقوف کردینا چاہیے۔

صحیح بخاری حضرت زید بن ثابت رضی اللہ  عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں  ہم نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ سحری کی، پھر آپ ﷺ نماز کے لیے اُٹھ گئے۔  حضرت انس رضی اللہ عنہ نے حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ (رسول اللہ ﷺ  اور آپ لوگوں نے  جب سحری کی تو) اَذان اور سحری کے درمیان کتنا وقفہ تھا؟ حضرت زید رضی اللہ عنہ نے کہا: پچاس آیتوں کی تلاوت کے بقدر۔ (صحیح بخاری، 1/257، ط: قدیمی)  اس سے معلوم ہوا کہ انتہاءِ سحر سے کچھ لمحات پہلے سحری موقوف کردینی چاہیے، کیوں کہ رسول اللہ ﷺ نے اَذان سے اتنی دیر پہلے سحری موقوف فرمائی جتنی دیر میں پچاس آیتیں تلاوت کی جاتی ہیں، اور رمضان المبارک میں اَذانِ فجر صبح صادق ہوتے ہی دی جاتی ہے۔

بدائع الصنائع میں ہے:

"والسنة فيها هو التأخير لأن معنى الاستعانة فيه أبلغ. وقد روي عن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - أنه قال: «ثلاث من سنن المرسلين: تأخير السحور، وتعجيل الإفطار، ووضع اليمين على الشمال تحت السرة في الصلاة»."

(کتاب الصوم، فصل بيان ما يسن وما يستحب للصائم وما يكره له أن يفعله، ج2، ص105، ط: سعید)

رد المحتار میں ہے:

"(قوله: ويستحب السحور)...جمع سحر ...وهو اسم للمأكول في السحر وهو السدس الأخير من الليل."

(کتاب الصوم، باب مايفسد الصوم وما لا يفسده،ج 2، ص419، ط: سعید)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"التسحر مستحب، ووقته آخر الليل قال الفقيه أبو الليث، وهو السدس الأخير هكذا في السراج الوهاج."

(کتاب الصوم، الباب الثالث فيما يكره للصائم وما لا يكره، ج1، ص200، ط: رشيدية)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144408101675

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں