بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

سحری سے پہلے احتلام ہوجانے کی صورت میں غسل کا شرعی حکم


سوال

اگر سحری سے پہلے احتلام ہوجائے تو کیا روزہ رکھنے کے لیے غسل کرنا ضروری ہے؟

جواب

واضح رہے کہ سحری سے پہلے احتلام یا صحبت  کی وجہ سےغسل واجب ہوجائے تو صرف وضو یا کلّی کرکے بھی روزہ رکھنے کےلیےسحری کی جاسکتی ہے، اسی وقت غسل کرنا ضروری نہیں ہے،اور بحالتِ جنابت سحری کرنے سے روزہ میں بھی کوئی فساد نہیں آئےگا،البتہ بلاوجہ غسل کو مؤخر کرنابھی درست نہیں ہے،اور غسل میں اس قدر تاخیر کرنا کہ فجر کی جماعت فوت ہوجائے یااس کا وقت نکل جائے جائز نہیں ہے۔

مجمع الانھر فی شرح ملتقی الابحر میں ہے:

"(ولو أكل أو شرب أو جامع ناسيا لا يفطر وكذا لو نام فاحتلم)...... (أو أصبح جنبا) ؛ لأن النبي عليه الصلاة والسلام كان يصبح أحيانا جنبا من غير احتلام وهو صائم؛ لأن الله تعالى أباح المباشرة بالليل ومن ضرورتها وقوع الغسل بعد الصبح".

(کتاب الصوم،باب موجب الفساد،ج:1،ص:245،ط:دار احیاء التراث العربی بیروت - لبنان)

الدر المختار میں ہے:

"(أو أصبح جنبا و) إن بقي كل اليوم........(لم يفطر)".

(کتاب الصوم،باب ما يفسد الصوم وما لا يفسده،ص:146،ط:دار الکتب العلمیۃ بیروت)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"ومن أصبح جنبا أو احتلم في النهار لم يضره كذا في محيط السرخسي".

(کتاب الصوم،الباب الثالث فيما يكره للصائم وما لا يكره،ج:1،ص:200،ط:المطبعۃ الکبری الامیریۃ بولاق مصر)

فقط و اللہ اعلم


فتوی نمبر : 144509101538

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں