بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

صحیح تجوید کے ساتھ تلاوت نہ کرنے والے غیرمقلد امام کے نماز پڑھنا


سوال

ہمارے گھر کے قریب اہلِ  حدیث کی مسجد ہے، مگر وہاں کے امام صاحب قرآن شریف صحیح نہیں پڑھتے، تجوید بہت خراب ہے الفاط کی ادائیگی بھی صحیح نہیں ہے۔ہم اس وجہ سے وہاں نما پڑھ لیتے ہیں؛ کیوں کہ  وہاں نمازیوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے، اور اللہ کا خوف بھی ہوتا ہے کہ ہمارے گھر سے یہ مسجد بہت قریب ہے ،اگر ہم یہاں نماز نہیں پڑھتے تو اللہ کی پکڑ نہ ہوجائے ۔انتظامیہ والوں سے بھی ہم نے کئی مرتبہ درخواست کی ہے کہ امام بدل دیں کوئی اچھا قاری لے  آئیں، مگر کوئی توجہ نہیں ہے مسجد کی کمیٹی کی طرف سے، سوال یہ ہے کہ کیا ہماری ان امام کے پیچھے نماز ہوجاتی ہوگی یا نہیں؟ رہنمائی فرمائیں!

جواب

واضح رہے کہ اگر غیر مقلد امام کے بارے میں یہ یقین ہو کہ نماز کے ارکان وشرائط میں مقتدیوں کے مذہب  کی رعایت کرتا ہے تو اس کی اقتدا میں نماز  پڑھنا بلاکراہت جائز ہے،  اور اگر رعایت نہ رکھنے کا یقین ہو  تو اس کی اقتدا میں نماز پڑھنا صحیح نہیں ہوگا،  اور جس امام کا حال معلوم نہ ہو  اس کی اقتدا میں نماز پڑھنا مکروہ ہے۔یہ تفصیل اس وقت ہے جب امام کا عقیدہ صحیح ہو، اگر اس کا عقیدہ فاسد ہے اور وہ مقلدین کو مشرک سمجھتا ہو  اور ائمہ کرام کو گالیاں دیتا ہو ان کو برا بھلا کہتا ہو تو اس کی اقتدا میں نماز پڑھنا مکروہِ تحریمی ہوگی۔لہذا کوشش کرکے کسی صحیح العقیدہ شخص کی اقتدا میں نماز ادا کرنی چاہیے، اگر قریب میں کوئی ایسی مسجد نہ ہو جس میں صحیح عقیدہ والا امام موجود ہو تو جماعت کی فضیلت حاصل کرنے کے ان کی اقتدا  میں نماز ادا کرلی جائے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"وفي النهر عن المحيط: صلى خلف فاسق أو مبتدع نال فضل الجماعة، .... زاد ابن ملك: ومخالف كشافعي؟ لكن في وتر البحر إن تيقن المراعاة لم يكره، أو عدمها لم يصح، وإن شك كره.

وفی الرد:(قوله إن تيقن المراعاة لم يكره إلخ) أي المراعاة في الفرائض من شروط وأركان في تلك الصلاة وإن لم يراع الواجبات والسنن كما هو ظاهر سياق كلام البحر."

(رد المحتار على الدر المختار كتاب الصلاةباب الإمامة،1/ 662 و 663 ط: سعید)

پھراگر غیرمقلد امام کے پیچھے نماز پڑھنے کی نوبت آجائے اوراس امام کی قراءت میں  تلفظ (حرکات وسکنات یامخارج وصفات) کی تبدیلی یا الفاظ کی کمی بیشی کی وجہ سے معنیٰ تبدیل نہ ہو یا معنیٰ تو تبدیل ہو لیکن تغیر فاحش نہ ہو  تو  اگرچہ اس سے نماز فاسد نہیں ہوگی، لیکن درست تلاوت پر قدرت ہوتے ہوئے اور علم ہوتے ہوئے ایسی غلطی کی تو  کراہت ضرور ہوگی، اور تلاوت کے اجر میں کمی ہوگی۔

اوراگرتجوید کی کمزوری اورالفاظ کی صحیح ادائیگی نہ ہونے کی وجہ سے قرآن کی تلاوت میں اس طرح کی غلطی ہوجائے کہ معنی میں تغیر فاحش ہوجائے، یعنی: ایسے معنی پیدا ہوجائیں، جن کا اعتقاد کفر ہوتا ہے اور غلط پڑھی گئی آیت یا جملے اور صحیح الفاظ کے درمیان وقفِ تام بھی نہ ہو (کہ مضمون کے انقطاع کی وجہ سے نماز کے فساد سے بچاجاسکے) اور نماز میں اس غلطی کی اصلاح بھی نہ کی جائے تو نماز فاسد ہوجاتی ہے۔

لہذاصورت مسئولہ میں  اگرمذکورہ امام ایسی لحن جلی کرے جس  کی وجہ سے معنی بدل جائے اور  تغیر فاحش ہو جائے تو ایسے امام کے پیچھے نماز جائز نہیں ہوگی۔اوراگرامام ایسے غلطی کرے جس کی وجہ سے معنی نہ بدلے اورتغیرفاحش بھی نہ ہوتوایسے امام کے پیچھے نماز جائز ہوگی۔

فتاوی دارالعلوم دیوبند میں ہے:

"قال في شرح المنیة الکبیر:"القاعدة عند المتقدمین أن ما غیره تغیراً یکون اعتقاده کفراً تفسد في جمیع ذلک سواء کان في القرآن أو لم یکن إلا ما کان من تبدیل الجمل مفصولاً بوقف تام، ثم قال بعد ذلک: فالأولی الأخذ بقول المتقدمین".

(فتاوی دارالعلوم دیوبند ، کتاب الصلاۃ ، 2/ ۳۰۳ط: دارالاشاعت)

وفی الفتاوی الخانیة علی هامش الهندیة

"وإن غیر المعنی تغیراً فاحشاً فإن قرأ: ” وعصی آدم ربه فغوی “ بنصب میم ” اٰدم “ ورفع باء ” ربه “……… وما أشبه ذلک لو تعمد به یکفر، وإذا قرأ خطأً فسدت صلاته..." الخ

(الفتاوی الخانیة علی هامش الهندیة، ۱: ۱۶۸، ط: المطبعة الکبری الأمیریة، بولاق، مصر)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"ومنها: ذکر کلمة مکان کلمة علی وجه البدل إن کانت الکلمة التي قرأها مکان کلمة یقرب معناها وهي في القرآن لاتفسد صلاته، نحو إن قرأ مکان العلیم الحکیم …، وإن کان في القرآن، ولکن لاتتقاربان في المعنی نحو إن قرأ: "وعداً علینا إنا کنا غافلین" مکان {فاعلین} ونحوه مما لو اعتقده یکفر تفسد عند عامة مشایخنا،وهو الصحیح من مذهب أبي یوسف رحمه الله تعالی، هکذا في الخلاصة ."

(الفتاوی الهندیة، کتاب الصلاۃ ،۱/ ۸۰، ط:رشیدیۃ)

"ذکر في الفوائد: لو قرأ في الصلاة بخطإفاحش ثم رجع وقرأ صحیحاً ، قال: عندي صلاته جائزة".

(الفتاوی الهندیة، ۱: ۸۲، ط: المطبعة الکبری الأمیریة، بولاق، مصر)

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله: بالألحان) أي بالنغمات، وحاصلها كما في الفتح: إشباع الحركات لمراعاة النغم، (قوله: إن غير المعنى) كما لو قرأ : الحمد لله رب العالمين، وأشبع الحركات حتى أتى بواو بعد الدال، وبياء بعد اللام، والهاء وبألف بعد الراء، ومثله قول المبلغ: "رابنا لك الحامد" بألف بعد الراء؛ لأن الراب هو زوج الأم، كما في الصحاح والقاموس، وابن الزوجة يسمى ربيبًا، (قوله: وإلا لا الخ ) أي وإن لم يغير المعنى فلا فساد إلا في حرف مد ولين إن فحش فإنه يفسد وإن لم يغير المعنى."

(حاشية رد المختار على الدر المختار ، کتاب الصلاۃ 1 / 630 ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144502101438

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں