بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

4 جمادى الاخرى 1446ھ 07 دسمبر 2024 ء

دارالافتاء

 

صاحب نصاب شخص کی بیوی کا زکات لینا


سوال

صاحبِ نصاب شخص  کی بیوی زكوة لے سکتی ہے یا نہیں؟

جواب

 بیوی  اگر مستحق زکوٰۃ ہے یعنی  اس کی ملکیت میں ضرورتِ  اصلیہ سے زائد  نصاب   یعنی ساڑھے باون تولہ چاندی یا اس  کے برابر  رقم نہیں ہے ، اور نہ ہی  اس  قدر ضرورت سے زائد  سامان ہے کہ جس کی مالیت نصاب کے برابر بنتی ہے اور نہ  ہی اس کا تعلق ہاشمی/عباسی خاندان سے ہےتو وہ زکوٰۃ لے سکتی ہے،اگر چہ اس کا شوہر صاحبِ نصاب ہے،البتہ شوہر اپنی زکوٰۃ بیوی کو نہیں دے سکتا۔

فتح القدیر میں ہے:

"(ولا إلى ولد غني إذا كان صغيرا) لأنه يعد غنيا بيسار أبيه، بخلاف ما إذا كان كبيرا فقيرا لأنه لا يعد غنيا بيسار أبيه وإن كانت نفقته عليه، وبخلاف امرأة الغني لأنها إن كانت فقيرة لا تعد غنية بيسار زوجها، وبقدر النفقة لا تصير موسرة.

(قوله وبخلاف امرأة إلخ) هذا ظاهر الرواية، وسواء فرض لها النفقة أو لا."

(کتاب الزکوٰۃ،باب من يجوز دفع الصدقة إليه ومن لا يجوز،ج2،ص272،ط:دار الفکر)

وفیہ ایضاً:

"(ولا إلى امرأته) للاشتراك في المنافع عادة.

قوله ولا إلى امرأته للاشتراك في المنافع) قال الله تعالى {ووجدك عائلا فأغنى} [الضحى: 8] أي بمال خديجة. وإنما كان منها إدخاله - عليه الصلاة والسلام - في المنفعة على وجه الإباحة والتمليك أحيانا فكان الدافع إلى هؤلاء كالدافع لنفسه من وجه إذ كان ذلك الاشتراك ثابتا، وكذا لا يدفع إليهم صدقة فطره وكفارته وعشره، بخلاف خمس الركاز يجوز دفعه لهم لأنه لا يشترط فيه إلا الفقر."

(کتاب الزکوٰۃ،باب من يجوز دفع الصدقة إليه ومن لا يجوز،ج2،ص270،ط:دار الفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144310100986

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں