بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

صاحب نصاب خواتین کے مردوں کو زکاۃ دینا


سوال

ہمارے گاؤں میں جن لوگوں کو زکوٰۃ اور صدقۃ الفطر عام طور پر دیا جاتا ہے، تو ان کی خواتین کے پاس ایک دو تولہ سونا ہوتا ہے،اس کے علاوہ ان کے مالی حالات کمزور ہوتے ہیں،تو اس کے ساتھ  کتنی نقد رقم اگر ہو تو وہ صدقۃ الفطر کا اہل نہیں سمجھا جائیگا ؟ 

جواب

   واضح رہے کہ عورت  کے  صاحب نصاب ہونے سے مرد  صاحب نصاب شمار نہیں ہوتا، نیز صدقہ فطر کا مصرف بھی وہی ہے جو زکوٰۃ کا مصرف ہے، جس شخص کو زکوٰۃ دے سکتے ہیں اسے صدقہ فطر بھی دیا جاسکتا ہے،چناں چہ  جس شخص کی   ملکیت میں ان کی ضرورتِ  اصلیہ سے زائد  نصاب   یعنی ساڑھے باون تولہ چاندی کے برابر  رقم نہیں ہے ، اور نہ ہی  اس  قدر ضرورت سے زائد  سامان ہے کہ جس کی مالیت نصاب کے برابر بنتی ہے اور نہ  ہی  وہ سید  ، ہاشمی ہیں تو ان اشخاص کے لیے زکاۃ اورصدقہ فطر  لینا جائز ہےاگرچہ کسی کی بیوی صاحب نصاب ہو، البتہ  اگر کسی کے پاس  کچھ زیور اور ضرورت سے زائد  معمولی  نقدی بھی ہو اور  دونوں کی قیمت ملاکر ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر بنتی ہے (یعنی صاحب نصاب ہو)تو ان کو زکاۃ دینا  اور صدقہ فطر دیناجائز نہیں ہے۔

لہٰذ صورت مسئولہ میں جن کو زکاۃ  اور صدقہ فطر دیا جارہا ہے ، اگر غالب گمان ہے کہ وہ مستحق ہیں ، تو ان کو دینا جائز ہوگا، اگرچہ  ان کی خواتین کے پاس کچھ  زیور ہو۔

حدیث میں ہے:

’’عن ابن عمر رضي الله عنهما قال: فرض رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم زكاة الفطر صاعا من تمر او صاعا من شعير على العبد والحر والذكر والانثى والصغير والكبير من المسلمين وامر بها ان تؤدى قبل خروج الناس إلى الصلاة. متفق عليه. ولابن عدي من وجه آخر والدارقطني بإسناد ضعيف: اغنوهم عن الطواف في هذا اليوم.‘‘

(البخاري:1503، مسلم:984، وحديث "أغنوهم عن الطواف.." أخرجه ابن عدي:7 /2519، والدارقطني:2 /153)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

'' لا يجوز دفع الزكاة إلى من يملك نصاباً أي مال كان دنانير أو دراهم أو سوائم أو عروضاً للتجارة أو لغير التجارة فاضلاً عن حاجته في جميع السنة، هكذا في الزاهدي، والشرط أن يكون فاضلاً عن حاجته الأصلية، وهي مسكنه، وأثاث مسكنه وثيابه وخادمه، ومركبه وسلاحه، ولا يشترط النماء إذ هو شرط وجوب الزكاة لا الحرمان، كذا في الكافي. ويجوز دفعها إلى من يملك أقل من النصاب، وإن كان صحيحاً مكتسباً، كذا في الزاهدي. .......ولا يدفع إلى بني هاشم، وهم آل علي وآل عباس وآل جعفر وآل عقيل وآل الحارث بن عبد المطلب، كذا في الهداية ۔ ويجوز الدفع إلى من عداهم من بني هاشم كذرية أبي لهب؛ لأنهم لم يناصروا النبي صلى الله عليه وسلم، كذا في السراج الوهاج. هذا في الواجبات كالزكاة والنذر والعشر والكفارة، فأما التطوع فيجوز الصرف إليهم، كذا في الكافي.''

(کتاب الزکاة،باب المصرف،ج:1,ص:189،ط: رشیدیه)

وفیہ ایضاً:

"ومصرف ھذہ الصدقۃ ما ھو مصرف الزکوٰۃ ، کذا فی الخلاصۃ."

(کتاب الزکاة،باب المصرف،ج:1,ص:194،ط: رشیدیه)

بدائع الصنائع میں ہے:

"ولو دفع إلى امرأة فقيرة وزوجها غني جاز في قول أبي حنيفة ومحمد وهو إحدى الروايتين عن أبي يوسف."

(کتاب الزکاۃ،فصل فی رکن الزکاۃ،ج:2،ص:47،ط:دار الكتب العلمية)

فتاوٰی عالمگیری میں ہے: 

"ويدفع إلى امرأة غني إذا كانت فقيرة." 

 (کتاب الزکاۃ،ج:1،ص:189، ط: بیروت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144509101586

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں