بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

صاحب نصاب شخص پر قرض کو زکوۃ کے طور پر معاف کرنا


سوال

 زید نے بکر سے معاملات یعنی لین دین میں سامان لے لیا اور جب  بکر زید  سے کافی وقت گزرنے  کے  بعد اپنے پیسوں کا مطالبہ کرتا ہے تو زید جواب دیتا ہے کہ میرے پاس پیسے نہیں ہیں مجھے معاف کر دیں اور زید جواب میں کہتا ہے کہ میں زکوٰۃ کے عوض معاف کرتا ہوں زید جواب میں کہتا ہے  کہ ہاں زکوٰۃ میں معاف فرمادیں  جبکہ بکر یہ جانتا ہے  کہ زید زکوٰۃ کا مستحق نہیں ہے، وہ صاحب نصاب ہے اب پوچھنا یہ ہے کہ :

1۔کیا بکر اس طرح زید کو زکوٰۃ کے  عوض اپنا ادھار معاف کرسکتا ہے ؟

2۔کیاصورت مذکورہ میں بکر کی زکوٰۃ ادا ہوسکتی  ہے یا نہیں؟

3۔کیا زید اس صورت میں زکوٰۃ لے سکتا ہے یا نہیں ۔

مسئلہ  کا جواب قرآن وحدیث وفقہ کے روشنی میں عنایت فرمائیں!

جواب

صورتِ  مسئولہ میں زکوۃ کے عوض اپنا ادھار معاف کرنے سے زکوۃ ادا نہیں ہوگی؛ کیوں کہ  زکوۃ ادا ہونے کے  لیے زکوۃ ادا کرتے وقت زکوۃ ادا کرنے کی نیت کرنا یا زکوۃ کی نیت سے رقم الگ کرنا ضروری ہے، اور یہاں مال کے لین دین کے وقت زکوۃ کی نیت نہیں کی تھی،  اس لیے زکوۃ ادا نہیں ہوگی۔ مزید یہ کہ  زید زکوۃ کامستحق نہیں ہے اور غیر مستحق کو زکوۃ کی نیت سے بھی زکوۃ دینے سے زکوۃ ادا نہیں ہوتی؛  لہذا مذکورہ صورت میں زکوۃ کے عوض ادھار معاف کرنے سے بکر کی زکوۃ ادا نہیں ہوگی ۔ ایک وجہ تو یہ ہے کہ زید زکوۃ کا مستحق  نہیں  اور دوسری وجہ لیں دین کے وقت زکوۃ دینے کی نیت نہیں تھی۔

فتاوی شامی میں ہے:

"ولو أبرأ رب الدين المديون بعد الحول فلا زكاة سواء كان الدين قويا أو لا خانية، وقيده في المحيط بالمعسر.أما الموسر فهو استهلاك فليحفظ بحر قال في النهر: وهذا ظاهر في أنه تقييد للإطلاق وهو غير صحيح في الضعيف كما لا يخفى

(قوله: وقيده) أي قيد عدم الزكاة فيما إذا أبرأ الدائن المديون ط (قوله: بالمعسر) أي بالمديون المعسر فكان الإبراء بمنزلة الهلاك ط.(قوله: فهو استهلاك) أي فتجب زكاته ط.(قوله: وهذا ظاهر إلخ) أي قوله البحر، وقيده إلخ ظاهر في أن مراده أنه تقييد للإطلاق المذكور في قوله سواء كان الدين قويا أو لا الشامل لأقسام الدين الثلاثة: أي أن سقوط الزكاة بإبراء الموسر عنه بعد الحول في الديون الثلاثة مقيد بالمعسر احترازا عن الموسر، فإن المديون إذا كان موسرا أو أبرأه الدائن لا تسقط الزكاة؛ لأنه استهلاك، وهذا غير صحيح في الدين الضعيف؛ لأنه لا تجب زكاته إلا بعد قبض نصاب وحولان الحول عليه بعد القبض فقبله لا تجب، فيكون إبراؤه استهلاكا قبل الوجوب فلا يضمن زكاته ومثله الدين المتوسط على ما قدمناه من تصحيح البدائع وغاية البيان. وكان الأوضح في التعبير أن يقول وهذا ظاهر في أن إبراء المديون الموسر استهلاك مطلقا وهو غير صحيح إلخ.ثم إن عبارة المحيط لا غبار عليها؛ لأنها في الدين القوي.ونصها ولو باع عرض التجارة بعد الحول بالدراهم ثم أبرأه من ثمنه والمشتري موسر يضمن الزكاة؛ لأنه صار مستهلكا، وإن كان معسرا أو لا يدري فلا زكاة عليه؛ لأنه صار دينا عليه وهو فقير فصار كأنه وهبه منه، ولو وهب الدين ممن عليه وهو فقير تسقط عنه زكاة. اهـ.وفيه ولو كان له ألف على معسر فاشترى منه بها دينارا ثم وهبه منه فعليه زكاة لألف؛ لأنه صار قابضا لها بالدينار."

(کتاب الزکوۃ، باب زکوۃ المال ج نمبر ۲ ص نمبر ۳۰۷،ایچ ایم سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144308101349

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں