بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

صاحبِ نصاب ہونے پر زکوۃ کا حکم


سوال

میرا سوال زکوۃ کےمتعلق ہے کہ مجھ پر کس قدر زکوۃ لاگو ہوگی ؟  بظاہر دیکھنے میں ، میں ایک صاحب حیثیت فرد معلوم ہوتا ہوں تاہم اندرون خانہ معاملہ بالکل مختلف ہے۔ میں ایک کرایہ کے بڑے مکان میں رہتا ہوں ،جہاں 25ہزار روپے ماہوار پر پوش علاقہ میں ایک خاصا بڑا گھر مجھے میسر ہے ، گھر میں ضروریاتِ زندگی کی ہر شے موجود ہے ، دو اے سی بھی لگے ہیں، ایک عدد چھوٹی گاڑی بھی موجود ہے جوکہ قسطوں پر 16 برس قبل لی گئی تھی، ابھی بھی اچھی چلتی ہے ، بیٹے کے پاس دوسری گاڑی ہے ، دو عدد چھوٹے پلاٹس ہیں ،جن کی مالیت آٹھ لاکھ سے زائد ہے اور صرف دو ماہ قبل ہی خریدے گئے ہیں، بچوں کے نام تین عدد بڑے پلاٹس خرید کر گفٹ کیے گئے ہیں ، اکاؤنٹ میں کوئی تین لاکھ روپے کی رقم موجود ہے جوکہ ایک پلاٹ کی فروخت سے حاصل ہوئی ہے ،جو تقریبا ڈیڑھ سال قبل بیچا گیا تھا،اور ایک عدد دکان ہے جوکہ 24سال سے زیرِتعمیر ہے ابھی تک قبضہ نہیں ملا ہے، مالیت بکنگ کے وقت ایک لاکھ دس ہزار روپے تھی اس کے علاوہ ذاتی ملکیت میں کچھ نہیں، ہاں ایک عدد بڑا آفس ہے جہاں سے ایک لاکھ روپے کرایہ آتا ہے وہ بھی بیوی کے نام پر خریدا گیا تھا اور آج بھی اسی کے نام ہے ،جب کہ پیسے پندرہ سال پہلے 45 لاکھ روپے میں نے ہی ادا کیے تھے،  یعنی بہت کچھ ہونے کے باوجود خود کے نام بہت زیادہ کچھ نہیں ۔ زیادہ تر چیزیں پلاٹس ، آفس ، دکان وغیرہ سب کچھ بچوں اور بیوی کے نام کردیا گیا ہے  ۔

اب آپ بتایئے کہ کیا مجھ پر زکوة لاگو ہوتی ہے ؟ اور کس قدر  لازم ہوگی ؟ یہ بھی بتایئے ؟

جواب

صورتِ  مسئولہ میں استعمال کی گاڑی اور گھریلو ساز و سامان پر زکوۃ واجب نہیں ،کرایہ پر دیے گئے آفس  کی مالیت پر زکوۃ  نہیں ،بلکہ اس سے حاصل شدہ کرایہ پر زکوۃ واجب ہے،اگر وہ سال کے اختتام تک باقی رہے ،اگر آفس کرایہ پر دیکر آمدنی حاصل کرنے کی غرض سے لی تھی تو اس سے حاصل ہونے والا کرایہ استعمال ہوجاتا ہےاور سال کے آخر میں برقرار نہیں رہتاتو اس پر زکوۃ واجب نہیں ،اکاؤنٹ میں موجود نقدی پر زکوۃ واجب ہے، زیرِ تعمیر  دکان اور دو عدد چھوٹے پلاٹ  سائل نے اگر بیچنے کی نیت سے خریدے  ہیں تو ان پر زکوۃ واجب ہے،ورنہ اس کی مالیت پر زکوۃ واجب نہیں ،تین عدد بڑے پلاٹ اگر بیٹوں کو مکمل قبضہ اور مالکانہ اختیارات سے حوالے کر دیے  ہیں تو وہ بیٹوں کی ملکیت ہیں ،ان پر زکوۃ واجب نہیں،اور اگر مالکانہ اختیارات کے ساتھ حوالے نہیں کیے تو  سائل کی نیت کا اعتبار ہوگا،اگر بیچنے کی نیت سے خریدے تو زکوۃ واجب ہوگی ،ورنہ نہیں۔

فتاوٰی ہندیہ میں ہے:

"و أما شروط وجوبها، فمنها الحرية حتى لاتجب الزكاة على العبد، و منها الإسلام حتى لاتجب على الكافر، و منها العقل و البلوغ فليس الزكاة على صبي و مجنون، و منها فراغ المال عن حاجته الأصلية، و منها الفراغ عن الدين، و منها كون النصاب ناميًا، و منها حولان الحول على المال العبرة في الزكاة للحول القمري، كذا في القنية."

(کتاب الزکوۃ، الباب الأوّل في تفسیر الزکوۃ، 1 /171 تا 175، ط: مکتبه ماجدیه کوئٹه)

 سنن ترمذی  کی روایت میں  ہے :

"عن علي رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: « قد عفوت عن الخيل والرقيق فهاتوا صدقة الرقة من كل أربعين درهماً درهم، وليس فى تسعين ومائة شىء فإذا بلغت مائتين ففيها خمسة دراهم ."

ترجمہ: حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:  میں نے گھوڑوں اور لونڈی و غلام کی زکاۃ معاف کر دی (یعنی یہ تجارت کے لیے نہ ہوں تو ان میں زکاۃ نہیں )پس چاندی کی زکاۃ دو  ہر چالیس درہم پر ایک درہم (لیکن خیال رہے )ایک سو نوے درہم میں زکاۃ نہیں ہے، جب دو سو درہم پورے ہوں گے تب زکاۃ واجب ہوگی اور زکاۃ میں پانچ درہم دینے ہوں گے ۔

(ابوب الزکوۃ،باب  ما جاء فی زکاۃ الذھب والورق:7/3 ط:مکتبہ مصطفیٰ البابی مصر)

فتاوٰی شامی میں ہے:

"(وتتم) الهبة (بالقبض) الكامل (ولو الموهوب شاغلا لملك الواهب لا مشغولا به) والأصل أن الموهوب إن مشغولا بملك الواهب منع تمامها وإن شاغلا لا، فلو وهب جرابا فيه طعام الواهب أو دارا فيها متاعه، أو دابة عليها سرجه وسلمها كذلك لا تصح وبعكسه تصح."

(    کتاب الھبہ  :690/691/5،ط:  ایچ ایم سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144309100674

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں