صاحب عشر یعنی جس شخص پر عشر لازم ہو تو کیا وہ اپنا عشر خود استعمال کرسکتا ہے؟
واضح رہے کہ عشر یا اس کی رقم کے مصارف وہی ہیں جو زکاۃ کے مصارف ہیں، یعنی جس طرح زکاۃ میں کسی مستحقِ زکاۃ کو بغیر کسی معاوضہ کے مالکانہ طور زکاۃ دینا لازم ہے ، خود اپنی زکاۃ کی رقم کا استعمال کرنا جائز نہیں ، اسی طرح عشر کو بھی کسی مستحق کو مالک بنا کر دینا ضروری ہے، لہٰذا صورتِ مسئولہ میں جس شخص پر عشر لازم ہے، اس کےلیے اپنا عشر خود استعمال کرنا شرعا جائز نہیں ، بلکہ فقراء و مساکین کو مالک بنا کرد ینا ضروری ہے۔
فتاوی شامی میں ہے:
"العشر مصرفه مصرف الزكاة".
(كتاب الجهاد، مطلب فيما ينتقض به عهد الذمي وما لا ينتقض، ج:4، ص:217، ط: سعيد)
وفیہ أیضاً:
"ويشترط أن يكون الصرف (تمليكا) لا إباحة كما مر".
(كتاب الزكاة، باب مصرف الزكاة والعشر، ج:2، ص:344، ط: سعيد)
شرح السیر الکبیر میں ہے:
"والعشر حق الفقراء إلى قيام الساعة".
(أبواب سهمان الخيل والرجالة في الغنائم، باب من له من الأمراء أن يقبل وأن يقسم وأن يجعل الأرض أرض خراج، ج:5، ص:317، ط: دار الكتب العلمية)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144607100576
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن