بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

صاحبِ ترتیب کی فجر فوت ہوجائے تو عید کی نماز کا حکم


سوال

اگر کسی صاحب ترتیب شخص کی  عید کے دن فجر کی نماز قضا ہوجائے تو کیا بغیر فجر قضا کیے عید کی نماز پڑھ سکتا ہے یا نہیں؟ مدلل جواب مرحمت فرماکر مہربانی فرمائیں!

جواب

عید کے دن فجر کی نماز فوت ہونے کی صورت میں صاحبِ  ترتیب شخص اپنی قضا فجر  پڑھے بغیر عید کی نماز ادا کرسکتا ہے۔ فجر ذمے  پر باقی ہونے کی وجہ سے عید کی نماز خراب نہیں ہوگی۔ ترتیب پانچ وقت کی فرض نمازوں (جس میں وتر بھی داخل ہے)  کے درمیان واجب ہے ، فوت شدہ اور وقتی دونوں کا یہ ہی حکم ہے۔ عید کی نماز کے متعلق فقہاء نے صراحت کی ہے کہ جس شخص کی فجر رہ گئی ہو وہ  چاہے تو عید سے قبل فجر کی قضا  کر لے اور اگر عید سے قبل قضا نہیں کرتا  تب بھی عید کی نماز درست ہوجائے گی اور اس دن کی  فجر کے علاوہ دیگر نمازوں کی قضا  ذمے  میں ہو تو عید کے بعد  ان کا قضا کرنا اولی اور بہتر ہے۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"إذا قضى صلاة الفجر قبل صلاة العيد لا بأس به ولو لم يصل صلاة الفجر لا يمنع جواز صلاة العيد وكذا يجوز قضاء الفوائت القديمة قبلها لكن لو قضاها بعدها فهو أحب وأولى، هكذا في التتارخانية ناقلا عن الحجة."

(کتاب الصلاۃ، باب العیدین ، ج نمبر ۱، ص نمبر ۱۵۰، دار الفکر)

فتاوی تاتارخانیہ میں ہے:

"و في الحجة و اذا قضي صلاة الفجر قبل صلاة العيد لا بأس به و لو لم يصل صلاة الفجر لا يمنع جواز صلاة العيد و ان لم يكن عليه فجر ذلك اليوم و لكن اراد ان يقضي الفوائت القديمة يجوز لكن لو قضي بعدها احب و اولي لئلا يقع الناس في التقليد ولا يتبعه غيره في النوافل."

(کتاب اصلاۃ، صلاۃ العیدین، ج نمبر ۲، ص نمبر ۶۲۵،مکتبۃ زکریا دیوبند)

فتاوی شامی میں ہے:

"الترتيب بين الفروض الخمسة والوتر أداء وقضاء لازم) يفوت الجواز بفوته»

بالأربع قبل الظهر؛ أما إذا أتى بها بعده فهي قضاء، إذ لا شك أنه ليس وقتها وإن كان وقت الظهر فافهم.

(قوله أداء وقضاء) الواو بمعنى أو مانعة الخلو، فيشمل ثلاث صور: ما إذا كان الكل قضاء، أو البعض قضاء والبعض أداء، أو الكل أداء كالعشاء مع الوتر ط ودخل فيه الجمعة، فإن الترتيب بينها وبين سائر الصلوات لازم، فلو تذكر أنه لم يصل الفجر يصليها ولو كان الإمام يخطب إسماعيل عن شرح الطحاوي."

(کتاب الصلاۃ، باب قضاء الفوائت، ج نمبر  ۲، ص نمبر ۶۵، ایچ ایم سیعد)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"ولو صلى الفجر وهو ذاكر أنه لم يوتر فهي فاسدة عند أبي حنيفة - رحمه الله تعالى - ولو تذكر فائتة في تطوعه لم يفسد تطوعه؛ لأن الترتيب عرف واجبا في الفرض بخلاف القياس فلا يلحق به غيره، كذا في محيط السرخسي."

(کتاب الصلاۃ، باب قضاء الفوائت ، ج نمبر ۱، ص نمبر ۱۲۱، دار الفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144506100769

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں