وتر کی قضا کا حُکم صاحبِ ترتیب کے لیے کیا ہے؟
جو شخص صاحبِ ترتیب ہو، اس پر اپنی ترتیب برقرار رکھنے کے لیے لازم ہے کہ اگر اس سے وتر کی نماز قضا ہوگئی تو فجر کی نماز ادا کرنے سے پہلے وتر کی نماز قضا کرے پھر فجر پڑھے۔ وتر کی نماز پڑھے بغیر چھ سے کم نمازیں ادا کرنے کی صورت میں اس کی وہ تمام نمازیں فاسد ہوں گی اور وتر ادا کرنے کے بعد ان کا دہرانا واجب ہوگا اور اس صورت میں اس کی ترتیب باقی رہے گی، اگر وتر پڑھے بغیر اس نے اگلے چھ وقتوں کی نمازیں (یعنی فوت شدہ وتر کے بعد کی فجر سے اگلے دن کی فجر کی نماز تک) ادا کرلیں تو اب اس کی ترتیب ساقط ہو جائے گی، البتہ یہ چھ نمازیں اس صورت میں درست ہو جائیں گی اور ان کا دہرانا واجب نہیں ہوگا۔
في الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2 / 65):
"(الترتيب بين الفروض الخمسة والوتر أداء وقضاء لازم).....(فلم يجز) .. (فجر من تذكر أنه لم يوتر) لوجوبه عنده (إلا) .. (إذا ضاق الوقت المستحب)".
وفيه أيضًا (2 / 68):
"لايلزم الترتيب بين الفائتة والوقتية ولا بين الفوائت إذا كانت الفوائت ستًّا، كذا في النهر. أما بين الوقتيتين كالوتر والعشاء فلايسقط الترتيب بهذا المسقط كما لايخفى."
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144112200963
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن