ایک شخص ہر سال زکات دیتا ہے، لیکن اس سال ایسا لگ رہا ہے کہ وہ سرمایہ کا مقروض ہے، تو کیا اس پر زکات اس سال ہوگی یا نہیں؟
اگر مذکورہ شخص اس قدر مقروض ہے کہ اس کا قرضہ منہا کرنے کے بعد اس کے پاس نصاب کے بقدر مال نہیں بچتا، تو پھر اس پر زکات لازم نہیں ہوگی اور اگر قرضہ منہا کرنے کے بعد بھی اس کے پاس نصاب کے بقدر یا اس سے زائد مال بچ رہا ہے، تو اس پر زکات لازم ہوگی۔
تاہم یہ بات بھی ملحوظ رہے کہ اگر زکات کا سال مکمل ہونے کی تاریخ گزرنے کے بعد مقروض ہوا ہے، تو پھر اس قرضۃ کا اعتبار نہیں ہوگا اور سال پورا ہونے پر جو مال موجود تھا، اس سارے مال پر زکات لازم ہوگی۔
الدر المختار مع رد المحتار میں ہے:
"(وسببه) أي سبب افتراضها (ملك نصاب حولي) نسبة للحول لحولانه عليه (تام).................. (فارغ عن دين له مطالب من جهة العباد).
(قوله فارغ عن دين) بالجر صفة نصاب، وأطلقه فشمل الدين العارض كما يذكره الشارح ويأتي بيانه، وهذا إذا كان الدين في ذمته قبل وجوب الزكاة، فلو لحقه بعده لم تسقط الزكاة لأنها ثبتت في ذمته فلا يسقطها ما لحق من الدين بعد ثبوتها جوهرة."
(كتاب الزكاة، ج:2، ص:260، ط:سعيد)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144609100869
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن