(1) ایک بندہ مہاجر ہے، اللّٰہ تعالیٰ کے راستے میں جہاد پر نکلا ہے اور اس کے پاس مال غنیمت کے 2 یا 3 لاکھ روپے موجود ہیں اور وہ رقم کسی کو کاروبار کے لیے دی ہے، کیا اس بندہ پر زکات واجب ہے؟
(2) کیا یہ بندہ کسی اور سے زکات لے سکتا ہے کہ نہیں؟
(1) مذکورہ شخص کی ملکیت میں چوں کہ نصاب سے زائد رقم موجود ہے؛ لہذا سال گزرنے پر اس پر زکات واجب ہوگی، مہاجر ہونے یا مسافر ہونے کی وجہ سے زکات معاف نہیں ہوگی۔
(2) مذکورہ شخص اگر شرعاً مسافر ہو اور اس کی ملکیت میں موجود دو یا تین لاکھ روپے اس کی دسترس میں ہوں، یعنی طلب کرنے پر اسے فوری دست یاب ہوسکتے ہوں تو اس کے لیے زکات لینا جائز نہیں، اور اگر دست یاب نہ ہوسکتے ہوں تو زکات لینا جائز ہوگا۔
البحر الرائق شرح كنز الدقائق (2/ 260):
"(قوله: وابن السبيل) هو المنقطع عن ماله لبعده عنه والسبيل الطريق فكل من يكون مسافرًا يسمى ابن السبيل، وهو غني بمكانه حتى تجب الزكاة في ماله، ويؤمر بالأداء إذا وصلت إليه يده، وهو فقير يدا حتى تصرف إليه الصدقة في الحال لحاجته، كذا في الكافي."
(کتاب الزکاۃ،باب مصرف الزکاۃ، ط:دارالکتاب الاسلامی بیروت)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144109200734
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن