بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

غیر ممالک میں ملازمت کرنے والوں کے صاحب ںصاب ہونے میں کس ملک کی مالیت کا اعتبار ہوگا؟


سوال

 جو لوگ غیر ممالک میں ملازمت کرتے ہیں ان کے صاحبِ  نصاب ہونے میں کہاں کی مالیت کا اعتبار ہوگا جہاں ملازمت کرتے ہیں اس جگہ کا یا ان کے اپنے وطن کا؟

جواب

صورتِ  مسئولہ میں مذکورہ لوگوں  کے صاحبِ  نصاب ہونے میں،  ان کا   قابل ِ زکات مال (سونا ، چاندی ، نقدی اور مالِ  تجارت)  جہاں موجود ہے،  اس مال کی جگہ کی مالیت کا اعتبار ہوگا، لہذا جس جگہ مال موجود ہے  اگر  اس جگہ کے اعتبار سے وہ چیز نصاب کے بقدر ہوجائے تو یہ شخص صاحبِ  نصاب شمار ہوگا۔

بدائع الصنائع (2 / 75):

"و أما مكان الأداء وهو الموضع الذي يستحب فيه إخراج الفطرة روي عن محمد أنه يؤدي زكاة المال حيث المال ويؤدي صدقة الفطر عن نفسه وعبيده حيث هو وهو قول أبي يوسف الأول ثم رجع وقال يؤدي صدقة الفطر عن نفسه حيث هو وعن عبيده حيث هم حكى الحاكم رجوعه وذكر القاضي في شرحه مختصر الطحاوي قول أبي حنيفة مع قول أبي يوسف وأما زكاة المال فحيث المال في الروايات كلها ويكره إخراجها إلى أهل غير ذلك الموضع إلا رواية عن أبي حنيفة أنه لا بأس أن يخرجها إلى قرابته من أهل الحاجة ويبعثها إليهم. وجه قول أبي يوسف أن صدقة الفطر أحد نوعي الزكاة ثم زكاة المال تؤدى حيث المال فكذا زكاة الرأس ووجه الفرق لمحمد واضح وهو أن صدقة الفطر تتعلق بذمة المؤدي لا بماله بدليل أنه لو هلك ماله لاتسقط الصدقة.

وأما زكاة المال فإنها تتعلق بالمال. ألا ترى أنه لو هلك النصاب تسقط؟ فإذا تعلقت الصدقة بذمة المؤدي اعتبر مكان المؤدي ولما تعلقت الزكاة بالمال اعتبر مكان المال."

فقط واللہ اعلم  


فتوی نمبر : 144109203084

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں