میری اپنی ایک رشتہ دار خاتون بیوہ ہیں , ان کی دکانوں سے ماہانہ کرایہ وصول ہوتا ہے ، ان کے پاس سونے کے زیورات بھی موجود ہیں جو شوہر اور جہیز کا حصہ ہیں ۔ کتنے ہیں نہیں بتاتیں، مجھ سے زکوٰۃ کی طلب گار ہیں ،کیا ان کو زکوٰۃ دینا جائز ہے ؟
زکاۃ اس شخص کو دی جاسکتی ہے جو غریب اور ضروت مند ہو اور اس کی ملکیت میں اس کی ضرورتِ اصلیہ سے زائد نصاب (یعنی ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت) کے برابر رقم نہ ہو ، اور نہ ہی اس قدر ضرورت و استعمال سے زائد سامان ہو کہ جس کی مالیت نصاب (ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت) کے برابر بنتی ہے اور نہ ہی وہ سید ، ہاشمی ہے تو اس شخص کے لیے زکاۃ لینا جائز ہے، اور اس کو زکاۃ دینے سے زکاۃ ادا ہوجائے گی۔ اگر کسی شخص کے پاس ساڑھے باون تولہ چاندی یا اس کے برابررقم ہو، یا ساڑھے سات تولہ سونا ہو، یا ضرورت سے زائد سامان ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت کے برابر ہو، یا ان میں بعض کا مجموعہ ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت کے برابر ہو تو اس کو زکاۃ دینا اور اس کے لیے زکاۃ لینا جائز نہیں ہے۔
لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر مذکورہ بیوہ عورت نصاب کے بقدر رقم کی مالک نہ ہو ،اور اس کے شوہر کے ترکہ میں بھی اس کے حصے میں آنے والی رقم اس قدر نہ ہو کہ جس سے وہ نصاب کے(ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے) بقدر رقم مالک ہوجائے تو وہ مستحق زکاۃ ہے، اس کو زکاۃ دینا جائز ہوگا، لیکن اگر وہ نصاب کے بقدر رقم کی مالک ہو تو اس کو زکوٰۃ دینا جائز نہیں ہوگا اور نہ ہی ان کا زکوٰۃ مانگنا جائز ہوگا۔
نیز ملحوظ رہے کہ عوام میں یہ بات غلط مشہور ہے کہ بیوہ مستحق زکاۃ ہے، جب کہ کسی عورت کا بیوہ ہونا زکاۃ کا مستحق ہونے کا سبب نہیں ہے، زکاۃ کا مستحق ہونے کا مدار فقیر و مسکین ہونے پر ہے، اگر بیوہ عورت نادار و فقیر ہو تو وہ زکاۃ کی مستحق ہوگی، اگر صاحبِ نصاب ہو تو وہ مستحق نہیں ہوگی، بلکہ اس پر خود زکاۃ ادا کرنا واجب ہوگا۔ فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144111201256
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن