بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

صاجبِ نصاب بیوہ کو زکات دینے کا حکم


سوال

ایک بیوہ عورت ہے تین بچیاں ہیں۔ ذریعہ آمدن کچھ خاص نہیں،اس کے پاس تین تولہ سونا اور تقریبًا تین لاکھ روپے ہیں جو کہ آئندہ بچوں کی گزر بسر کے لیے ہیں۔ کیا ایسی عورت کو صدقاتِ  واجبہ خصوصًا زکوٰۃ  دی  جا سکتی ہے؟ کیا اس کا والد یا اس کے سگے بہن بھائی اسے زکوٰۃ دے سکتے ہیں۔اسی طرح سگے رشتہ داروں کی دی گئی زکوٰۃ کا کیا حکم ہے؟ نیز صدقہ فطر کا کیا حکم ہوگا؟

جواب

1:   صورتِ  مسئولہ میں اگر اس  بیوہ پر کوئی قرضہ نہیں، اور اس کے پاس تین تولہ سونا اور تقریبًا تین لاکھ روپے موجود ہیں تو چوں کہ یہ بیوہ خود  صاحبِ نصاب   ہے، اس  لیے اس  کو زکات دینا جائز نہیں،بلکہ اس پر خود  زکات دینا واجب ہے،  البتہ اس کےبچے  سید    اور   صاحبِ نصاب نہ ہوں، نیز مال اور اس پر قبضہ وغیرہ سمجھتے ہوں تو ان  بچوں کو زکات دینا جائز ہے ۔

2:  والد اپنی بیٹی کو نہیں دے سکتا، اورسگی بہن کو تو زکات دینا جائز ہے، نیز  والدین کے علاوہ دیگر رشتہ داروں کا زکات دینا بھی جائز ہے؛  لیکن صورتِ مسئولہ میں ذکر کردہ بیوہ  شریعت کی نظر میں مال دار ہے؛ اس  لیے اس کے بہن بھائی اس کو زکات نہیں دے سکتے۔ 

واضح رہے کہ آدمی جن سے پیدا ہو: ماں، باپ، داد، دادی، نانا، نانی اوپر  تک کے  اس سلسلہ  نسب کے مستحق  افراد کو زکات نہیں دے سکتا،اور اسی طرح آدمی سے جو پیدا ہے: بیٹا، بیٹی، پوتا، پوتی، نواسہ، نواسی نیچے تک کے اس سلسلہ نسب کے مستحق افراد  کو بھی   زکات نہیں دے سکتا۔ 

3: صدقہ فطر کا بھی وہی حکم ہے جو زکات کا حکم ہے۔

الدر المختار مع رد المحتار  میں ہے:

"(ولا) إلى (من بينهما ولاد) ولو مملوكا لفقير...........( و ) لا إلى ( غني ) يملك قدر نصاب فارغ عن حاجته الأصلية من أي مال كان كمن له نصاب سائمة لا تساوي مائتي درهم.....( و ) لا إلى ( طفله ) بخلاف ولده الكبير وأبيه وامرأته الفقراء وطفل الغنية فيجوز لانتفاء المانع ( و ) لا إلى ( بني هاشم )."

(وفی رد المحتار): (قوله: وإلى من بينهما ولاد) أي بينه وبين المدفوع إليه؛ لأن منافع الأملاك بينهم متصلة فلا يتحقق التمليك على الكمال هداية والولاد بالكسر مصدر ولدت المرأة ولادة وولادا مغرب أي أصله وإن علا كأبويه وأجداده وجداته من قبلهما وفرعه وإن سفل... كأولاد الأولاد وشمل الولاد بالنكاح والسفاح فلا يدفع إلى ولده من الزنا ولا من نفاه كما سيأتي، وكذا كل صدقة واجبة كالفطرة والنذر والكفارات.

(الدر المختارمع رد المحتار:كتاب الزكاة، باب المصرف (2/ 346، 347، 349، 350)،ط.  دار الفكر، سنة النشر 1386مكان النشر بيروت)

فقط، واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144209201567

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں