اگر کسی صاحب کے پاس دو ڈھائی لاکھ کا کاروبار ہو، لیکن اس کے ہاتھ میں دس بارہ ہزار روپے ہی ہیں کہ جس سے کاروبار چلتا ہے کہ اگر اس پیسے کو کسی دوسرے کام میں صرف کیا جائے تو کاروبار کے ٹھپ ہونے کا اندیشہ ہے تو کیا ایسی صورت میں اس طرح کے کاروباری شخص پر قربانی واجب ہے ؟
صورتِ مسئولہ میں مذکورہ شخص صاحبِ نصاب ہے، اگر عید الاضحٰی کے دنوں میں بھی اس کی حیثیت یہی ہو تو اس پر قربانی واجب ہوگی، لہذا اگر نقدی موجود نہ ہو تو قرضہ لے کر قربانی کرنا ضروری ہوگا، تاہم وجوب کی ادائیگی کے لیے مکمل جانور کرنا ضروری نہیں، ایک حصہ لینے سے بھی واجب قربانی ادا ہوجائے گی۔
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"(وأما) (شرائط الوجوب) : منها اليسار وهو ما يتعلق به وجوب صدقة الفطر دون ما يتعلق به وجوب الزكاة ... والموسر في ظاهر الرواية من له مائتا درهم أو عشرون دينارًا أو شيء يبلغ ذلك سوى مسكنه ومتاع مسكنه ومركوبه وخادمه في حاجته التي لا يستغني عنها، فأما ما عدا ذلك من سائمة أو رقيق أو خيل أو متاع لتجارة أو غيرها فإنه يعتد به من يساره."
( كتاب الأضحية، الباب الأول في تفسير الأضحية وركنها وصفتها وشرائطها وحكمها، ٥ / ٢٩٢، ط: دار الفكر)
دیکھیے:
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144212200683
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن