بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

صاحبِ حق نہ ملے تو کیا کیا جائے؟


سوال

اگر   کسی  شخص  نے کسی  دوسرے  کا حق  مارا  ہو  اور  اس بندے کاجس کا حق لیا ہے ،معلوم نہ ہو کہ کہاں ہے ،تو کیا کرنا  چاہیے؟

جواب

ناحق کسی کا مال کھانا ناجائز اور حرام ہے، ناحق  مال کھانے والے پر  قرآن وحدیث میں بہت سخت وعیدات وارد ہوئی ہیں،  لہذا اگر کسی شخص نے کسی کا حق مارا ہو، یعنی ناجائز طریقے سے (جیسے غصب یا چوری کے ذریعے) کسی کا مال لیا ہو، اس صورت میں ایسے شخص پر توبہ واستغفار کے ساتھ  ساتھ  صاحبِ حق کا حق واپس کرنا بھی لازم ہے۔

اب اگر صاحبِ حق زندہ ہے، تو اسے تلاش کیا جائے ،اور اس کا حق اس کو واپس لوٹادیاجائے ، البتہ اگر  صاحب حق کو بتانے میں عار محسوس ہوتی ہویاکسی فساد کا اندیشہ ہوتو یہ بھی گنجائش ہے کہ آدمی وہ رقم یا صاحبِ حق کا حق اسے  کسی اور عنوان سے واپس کردے ، مثلاً ہدیہ اور تحفہ کے نام سے واپس کردے، یا ان کو کوئی چیز ان کے واجب حق کے برابر قیمت والی فروخت کرکے بعد میں قیمت معاف کرکے  کہہ دے کہ  چیز ہدیہ میں دی ہے، غرض نیت تو  واجب حق ادا کرنے کی ہو، لیکن دینے کا عنوان ہدیہ وغیرہ ہو تویہ  جائز ہے، اصل مقصد حق دار کو حق پہنچانا ہے۔اور صاحبِ حق کا انتقال ہوچکا ہو تو اس کی شرعی ورثاء کو وہ رقم وغیرہ ادا کردی جائے۔

اور  اگرصاحبِ  حق  معلوم نہ ہو اور  نہ ہی ان کے ورثاء معلوم ہوں تو ایسی صورت میں ان کے مال کو اصل  مالک کی نیت سے صدقہ کردینا واجب ہے، اور  صدقہ  میں بھی یہ ضروری ہے مستحق لوگوں کودیا جائے، تاہم اگر بعد میں صاحبِ حق یا اس کے ورثاء مل جائیں تو ان سے حق معاف کرانا یا ان کا مال انہیں ادا کرنا ضروری ہوگا۔

 یہ تفصیل تو اس وقت ہے کہ صاحبِ مال کا مال موجود ہو اور اس کو پہنچانا ممکن ہو  یا بعینہ اس کا مال یا حق تو  موجود نہ ہو، لیکن بدلہ میں قیمت اور ضمان ادا کرنے کی استطاعت موجود ہو، ان دونوں صورتوں میں حق داروں کو ان کا حق پہنچانا ضروری ہے ، لیکن اگر  حق دار کا حق ضائع ہوگیا ہے اور نہ اصل حق موجود ہے اور نہ ہی اتنی استطاعت ہے کہ اربابِ حق کا حق ادا کرسکے، بلکہ اب ناجائز  مال لینے والا یا کھانے والا خود فقیر ہوگیا ہے، حق ادا کرنے کے لیے اس کے پاس کچھ نہیں ہے تو اس صورت میں اس کو چاہیے کہ اللہ تعالیٰ سے توبہ واستغفار کرے ، اگر صاحبِ حق زندہ ہے تو اس سے حق معاف کرالے، اگر وہ خود نہیں تو اس کے ورثاء سے معافی مانگ لے، لیکن اگر حق دار یا اس کے ورثاء سے ملاقات ممکن نہ ہو تو  اس کے لیے دعاءِ مغفرت اور استغفار کرے، صاحبِ عذر کو اللہ تعالیٰ جانتے ہیں، اور ہر آدمی کے دل کے حال کو بھی خوب  دیکھ رہے ہیں، اگر اللہ چاہیں گے تو اس کی نافرمانی کا گناہ معاف کردیں گے اور جس بندہ کا حق تلف کیا ہے اس سےقیامت کے دن معافی کا بندوبست بھی کردیں گے۔

’’فتاوی شامی‘‘  میں ہے:

"والحاصل: أنه إن علم أرباب الأموال وجب رده عليهم، وإلا فإن علم عين الحرام لايحل له ويتصدق به بنية صاحبه".

(5/99، مَطْلَبٌ فِيمَنْ وَرِثَ مَالًا حَرَامًا، ط: سعید)  

وفیه أیضاً:(5/92سعید)

"والأصل أن المستحق بجهة إذا وصل إلى المستحق بجهة أخرى اعتبر واصلاً بجهة مستحقة إن وصل إليه من المستحق عليه وإلا فلا.

(قوله: إن المستحق بجهة) كالرد للفساد هنا، فإنه مستحق للبائع على المشتري، ومثله رد المغصوب على المغصوب منه. (قوله:بجهة أخرى) كالهبة ونحوها.

(قوله:وإلا فلا) أي وإن لم يصل من جهة المستحق عليه، بل وصل من جهة غيره فلايعتبر".  

-اسلامی معیشت کے بنیادی اصول، از مفتی عبد السلام چاٹگامی صاحب۔

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144212202221

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں