بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

صاحب حق کا معلوم نہ ہونے کی صورت میں حق کی ادائیگی کا حکم


سوال

مجھے ایک ہندو کاروباری ساتھی نے  ایک کام کے لیے 40 ہزارروپے دیے تھے، لیکن وہ کام  نہیں ہوا،  تو میں نے  وہ  مکمل رقم واپس کرنی چاہی، جس میں سے 25000 روپے ادا کردیے ، اور بقیہ 15000 ہزار روپے جب میرے پاس آئے تو وہ ساتھی معلوم نہیں کہاں چلا گیا، جہاں وہ کام کرتا ہے ، وہاں بھی کسی کومعلوم نہیں، نہ ہی اس کا فون لگ رہا ہے، اب سوال یہ ہےکہ اس کی بقیہ رقم کا کیا کروں؟

جواب

صورت مسئولہ میں سائل کو  اگرصاحبِ حق   (ہندوساتھی) کا کوئی پتہ معلوم نہیں ہے اور  ہر ممکن کوشش کے بعد بھی اس سے کوئی رابطہ نہیں ہوسکا اور نہ ہی ان کے ورثاء معلوم ہیں ، تو ایسی صورت میں  سائل بقیہ 15000 روپے محفوظ رکھیں اور صاحب ِ حق کو تلاش کرے،لہذا جب بھی صاحب ِ حق یا اس کا کوئی وارث آئے تو وہ رقم ادا کر دےاور آخر تک نہ آئے تو صاحب ِ حق یا اس کے ورثاء کو رقم ادا کرنے کی وصیت کر دے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"والحاصل: أنه إن علم أرباب الأموال وجب رده عليهم، وإلا فإن علم عين الحرام لايحل له ويتصدق به بنية صاحبه".

(مطْلب فيمن ورث مالا حراما،ج:5، ص:99، ط: سعید)  

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307100681

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں