بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

صاحب حق اگر انتقال کر جائے تو اس کے حق کی تلافی کی کیا صورت ہے؟


سوال

 اگر صاحب حق اس دنیا میں نہیں رہا  یا ایسا غائب ہے کہ اس کا پتہ چلا ممکن نہ ہو تو  پھر کس طریقہ  سے صاحب حق کا حق دیا جائےگا یا اس سے اس کا حق معاف کرایا جائے ؟

جواب

واضح رہے کہ کسی بھی انسان کی حق تلفی کرنا خواہ وہ حق تلفی مال کے اعتبار سے ہو یا جان کے اعتبار سے ہو یا عزت کے اعتبار سے   ناجائز اور حرام ہے، اس  پر  قرآن وحدیث میں بہت سخت وعیدات وارد ہوئی ہیں،  لہذا اگر کسی شخص نے کسی کی حق تلفی کی  ہوتو  ایسے شخص پر توبہ واستغفار کے ساتھ  ساتھ  صاحبِ حق سے معافی مانگنا اور مالی حق  ہے تو اسے واپس کرنا  بھی لازم ہے۔

پس  اگر مالی حق ہے اور صاحبِ حق زندہ ہے، تو اسے تلاش کیا جائے اور اس سے معافی مانگی جائے اور  اس کا حق اس کو واپس لوٹادیاجائے اور اگر صاحبِ حق کا انتقال ہوچکا ہو تو اس کے شرعی ورثاء کو وہ حق  ادا کردیا جائے۔

اور  اگرصاحبِ  حق  معلوم نہ ہو اور  نہ ہی ان کے ورثاء معلوم ہوں تو ایسی صورت میں ان کے مال کو اصل  مالک کی نیت سے صدقہ کردینا واجب ہے، اور  صدقہ  میں بھی یہ ضروری ہے مستحق لوگوں کودیا جائے، تاہم اگر بعد میں صاحبِ حق یا اس کے ورثاء مل جائیں تو  (ان کے مال کو صدقہ کرنے کا انہیں بتا کر)ان سے حق معاف کرانا یا(اگر وہ معاف نہ کریں تو) ان کا مال انہیں ادا کرنا ضروری ہوگا۔

 اور اگر مال کے علاوہ دیگر حقوق ہوں اور صاحب حق کا انتقال ہو چکا ہو یا اس کا علم نہ ہو تو اس صورت میں حکم یہ ہے  کہ اللہ تعالی سے توبہ و استغفار کے ساتھ ساتھ   اس کے لیے دعاءِ مغفرت اور استغفار کرے،  اللہ تعالیٰ ہر آدمی کے دل کے حال کو  خوب  دیکھ رہے ہیں، اگر اللہ چاہیں گے تو اس کی نافرمانی کا گناہ معاف کردیں گے اور جس بندہ کا حق تلف کیا ہے اس سےقیامت کے دن معافی کا بندوبست بھی کردیں گے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"لِأَنَّ سَبِيلَ الْكَسْبِ الْخَبِيثِ التَّصَدُّقُ إذَا تَعَذَّرَ الرَّدُّ عَلَى صَاحِبِهِ اهـ."

( كتاب الحضر و الاباحة، فصل في البيع، ج:6،ص:385،ط: دار الفكر)

مرقاۃ المفاتیح میں ہے:

"و عن أنس - رضي الله عنه - قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "إن من كفارة الغيبة أن تستغفر لمن اغتبته، تقول: اللهم اغفر لنا وله ... وقال النووي: رأيت في فتاوى الطحاوي أنه يكفي الندم والاستغفار في الغيبة وإن بلغت، فالطريق أن يأتي المغتاب ويستحل منه  فإن تعذر لموته أو لغيبته البعيدة استغفر الله تعالى."

(کتاب الآداب ،باب حفظ اللسان ،والغیبۃ والشتم ،ج:7،ص:3057،ط:دار الفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144504101059

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں