بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

صاحبِ حق معاف کردہ حق کے واپسی کا مطالبہ نہیں کرسکتا


سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے  میں  کہ اگر کسی کی  بیوی اپنا ذاتی مال جواس کو  تحفہ تحائف  کی صورت میں ملا ہو، (سسرال والوں   کی طرف سے یا کسی  اور رشتہ  دار یا  دوست وغیرہ  کی طرف  سےملاہو)  اپنے شوہر کی اجازت کے بغیر اپنے کسی عزیز یا  بھائی بہن  کو دے دے یا اپنے بھائی کے پاس امانت رکھے یا لوکر میں رکھے اور اس کی ایک چابی  بھائی کے پاس رکھے اور بھائی  نے چند مدت بعد لوکر میں رکھا  ہوا سونا  چاندی  اپنے کسی غرض میں  استعمال کیا  اور نیت  واپس کرنے کی تھی  ،  لیکن حالات نے مجبور کردیا  اور وہ واپس نہ کرسکا اور اس امانت میں خیانت کی اطلاع اپنی بہن کو بھی  دی تو بہن نے بھائی کی معاشی صورت حال کو دیکھ کر  معاف کر دیا  تھا ،  لیکن اب  بہن اپنے شوہر کے دباؤ میں آکر اپنے بھائی سے  معاف کی ہوئی  اشیاء کے  واپسی کا مطالبہ کر  رہی ہے ۔

1۔سوال یہ ہے کہ  کیا شوہر  بیوی  کو اس کی ذاتی ملکیت کے خرچ کرنے  پر  مجبور کرسکتا ہے  یا  بیوی کو جائز امور میں  خرچ کرنے سے روک سکتا ہے ؟

2۔ کیا بہن اپنے  بھائی   / بہن سے  معاف کیا  ہوا مال  پیسہ سونا چاندی واپس طلب کر سکتا ہے ؟

3۔کیا  بہن معاف کی ہوئی اشیاء  میں شرعاً  رجوع کرسکتی ہے  ، بھائی یہ بھی کہتا ہے  کہ " میں نے لوکر میں سے  سونے لیا ہی نہیں ،  جب مجھ پر دباؤ ڈالا گیا ،  تو  میں  نے کہا  کہ : میں اس کو ادا کروں گا  "تو اس کی بہن نے کہا کہ :" میں نے معاف کر دیا "

  ممکن ہے  بہن نے جس بھائی یا بہن کو سونا چاندی و غیرہ دے کر معاف کردیا ہے، اس وقت  ان کی معاشی صورتِ حال پہلے کے مقابلے میں بہتر ہو۔

جواب

1۔صورت ِ مسئولہ میں شوہر اپنی بیوی کو  نہ اس کے ذاتی  مال کے خرچ کرنے پر مجبور کر سکتا ہے اور نہ ہی    اس کو ذاتی   مال میں  جائز تصرف   سے روک سکتا ہے۔ بیوی اپنے مال کی  خود مالک ہے اور اس میں ہر جائز تصرف کا حق رکھتی ہے ۔

3،2۔بہن نے جب اپنے بھائی یا بہن کو مذکورہ اشیاء معاف کردی تھیں اور بھائی نے انکار نہیں کیا تو اب وہ ان کے واپسی کا مطالبہ نہیں کرسکتی ہے ۔

السنن الكبرى ميں ہے:

"عن أبي حرة الرقاشي، عن عمه، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " لا يحل مال امرئ مسلم إلا بطيب نفس منه."

(كتاب الغضب ، باب من غصب لوحا فأدخلہ فی سفينۃ أو بنى عليه جدارا : 6/166 ، رقم :  11545 ، ط : دار الكتب العلمية)

وفی شرح المجلۃ:

      "إذا أبرأ واحد آخر  من حق سقط حقه ذالك وليس له دعوي ذالك الحق ثم إذا  كان ذالك الحق  دينا كان سقوطه قضاء وديانة لأن ما في الذمة يقبل الإسقاط ۔"

 

(4/576/مادۃ:1562)

وفي الأشباه و النظائر:

"أن الساقط لا يعود ۔"

(3/53/ط :دار الکتب العلمیہ)

فقط و اللہ اعلم


فتوی نمبر : 144304100228

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں