بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1445ھ 01 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مجنون بھائی کا مال ذاتی استعمال میں خرچ کرنے اور مجنون کی شادی کرانے کاحکم


سوال

1۔ہم دو بھائی اور پانچ بہنیں ہیں،ہمارے والدین انتقال کرچکے ہیں،ہمارے چھوٹے بھائی جن کی عمر 43سال  ہیں،ذہنی معذور (مجنون)ہیں،وہ میرے ساتھ(بڑےبھائی کےساتھ) جس گھر میں رہتے ہیں،اس کا34 فیصد حصہ اُن کاہے،اور 66 فیصد حصہ میرا ہے،اس کے علاوہ ہم دونوں بھائیوں کی ایک دکان ہے(جوہمیں وراثت میں ملی تھی)،جس کاکرایہ آدھا میں لیتا ہوں اور آدھا میرے معذور بھائی کاہے،میرے معذور بھائی کامیں سرپرست ہوں ،اور اُن کاعلاج معالجہ ،کھانا،پینااور دیگر جتنی ضروریات ہیں اُن سب کا میں اُن کادکان کے کرایہ  میں جو آدھا حصہ بنتاہے اُس سے انتظام کرتاہوں،میں اُن کا ہرطرح سے خیال رکھتاہوں،اُن کی دیکھ بھال میں کسی قسم کی کوتاہی نہیں کرتاہوں،لیکن ہماری ایک بہن ہے جو اپنے شوہر سے علیحدہ ہوگئی ہے،اُن کا ایک 24سالہ بیٹااورایک 22سالہ بیٹی ہے،وہ اپنےدونوں بچوں کےساتھ ہمارے (میرے اور میرے معذور بھائی  کے)  گھر میں رہتی ہیں،اور میرے معذور بھائی کی آمدنی کو اپنی ذاتی استعمال میں خرچ کرتی ہیں،جب کہ اُن(مذکورہ بہن) کے لیے علیحدہ گھر کا انتظام ہوچکاہے،اور اُن کی اچھی خاصی ماہانہ معقول آمدنی بھی ہے،جس سے بسہولت اُن کا گزر بسر ہوسکتاہے،جوان بیٹا بھی ہے جوکمانے کی استطاعت رکھتاہے،تو ایسی صورتِ حال میں ہماری بہن کا ہمارے گھر میں رہنا جائز ہے؟جب کہ  ہم اُن کو بار بار کہہ چکے ہیں کہ آپ اپنی گھر چلی جاؤ،وہ اور اُن کابیٹا ہمارے گھر میں زبردستی رہتے ہیں ،ہمارے ساتھ نامناسب رویہ رکھتے ہیں ،ہم اُن سے بہت تنگ آچکے ہیں۔

2۔کیا ہماری بہن کا میرے معذور بھائی کی آمدنی کو اپنی ذاتی استعمال میں خرچ کرناجائز ہے؟جب کہ اُن کی اپنی معقول آمدنی ہے،اگر جائز نہیں تو ماضی میں اس بہن نے معذور بھائی کے جو پیسے  خرچ کیے ہیں اُن کاکیا حکم ہے؟

3۔کیا ہم اپنے معذور بھائی (جوبچپن سے ذہنی طور پر مجنون ہے)کے لیے شادی کراسکتے ہیں،اور نکاح میں اُن کے قبول کرنے کاکیاحکم ہوگا،کیااُن کانکاح قبول کرنامعتبرہے؟

جواب

1،2۔صورتِ مسئولہ میں جب سائل کی بہن کا اپناگھر موجودہے اور اُن کی اپنی معقول آمدنی ہے،جس سے اُن کاگزر بسر ہوسکتاہے،نیز اُن کاجوان بیٹا بھی ہےجوکمانے کی استطاعت رکھتاہے،اور سائل اُن کواپنے گھر میں ٹھہرانے پر راضی نہیں ہے،تو ایسی صورت میں سائل کی بہن کاسائل کے گھر میں مستقل رہائش اختیار کرنا جائز نہیں ہے۔نیز سائل کی بہن کااپنے معذور بھائی کی آمدنی اپنی ذاتی استعمال میں خرچ کرنا جائز نہیں ہے،اُن پر لازم ہے کہ  اُنہوں نے اپنے معذور بھائی کی جتنی رقم اپنی ذاتی استعمال میں خرچ کی ہیں، وہ واپس کردیں۔

3۔سائل کے معذوربھائی کا نکاح میں ایجاب وقبول معتبر نہیں ہے،اُن کی طرف سے  سائل (جوکہ اُن کاسرپرست اور ولی ہے )ایجاب وقبول کرکے اُن کا نکاح کراسکتا ہے۔البتہ سائل کےبھائی کادماغی توازن  درست نہیں ہے،جس کی وجہ سے بیوی کی حق تلفی کاقوی اندیشہ ہے،لہٰذا بہتریہ ہےکہ اُن کی شادی نہ کرائی جائے۔

بدائع الصنائع میں ہے:

"ولا يجوز ‌التصرف ‌في ‌ملك ‌الغير بغير إذنه."

(كتاب النكاح، فصل بيان شرائط الجواز والنفاذ، 234/2، ط: دارالكتب العلمية)

فتاوٰی ہندیہ میں ہے:

"ويجبر الولد الموسر على نفقة الأبوين المعسرين مسلمين كانا، أو ذميين قدرا على الكسب، أو لم يقدرا بخلاف الحربيين المستأمنين، ولا يشارك الولد الموسر أحدا في نفقة أبويه المعسرين كذا في العتابية."

(كتاب الطلاق، الباب السابع عشر في النفقات، الفصل الخامس في نفقة ذوي الأرحام، 564/1، ط: دارالفكر)

وفیہ ایضًا:

"وكذا إذا كان للفقير ابن نصراني، وله أخ مسلم وهما موسران فالنفقة على الابن."

(كتاب الطلاق، الباب السابع عشر في النفقات، الفصل الخامس في نفقة ذوي الأرحام، 566/1، ط: دارالفكر)

وفیہ ایضًا:

"وتجب نفقة الإناث الكبار من ذوي الأرحام، وإن كن صحيحات البدن إذا كان بهن حاجة إلى النفقة كذا في الذخيرة."

(كتاب الطلاق، الباب السابع عشر في النفقات، الفصل الخامس في نفقة ذوي الأرحام، 566/1، ط: دارالفكر)

فتاوٰی شامی میں ہے:

"(وهو) أي الولي (شرط) صحة (نكاح صغير ومجنون ورقيق)."

(كتاب النكاح ،باب الولي،55/3، ط: سعيد)

البنایہ شرح الہدایہ  میں ہے:

"قلنا: الأهلية فيما نحن فيه تبطل من كل وجه. وفي المجنون من وجه، فإنه أهل للملك وزواله، وقد يكون أهلاً لإيقاع الطلاق والعتاق، ألا ترى أن الولي لو زوجه امرأة يصح النكاح."

(کتاب العتاق،90/6،ط: دار الكتب العلمية)

فتاوٰی ہندیہ میں ہے:

"(وأما شروطه) فمنها العقل والبلوغ والحرية في العاقد إلا أن الأول شرط الانعقاد فلا ينعقد نكاح المجنون والصبي الذي لا يعقل."

(كتاب النكاح، الباب الأول في تفسيره شرعا وصفته وركنه وشرطه وحكمه،267/1، ط: دارالفكر)

فتاوٰی شامی میں ہے:

"(و) يكون (سنة) مؤكدة في الأصح فيأثم بتركه ويثاب إن نوى تحصينا وولدا (حال الاعتدال) أي القدرة على وطء ومهر ونفقة ورجح في النهر وجوبه للمواظبة عليه والإنكار على من رغب عنه (ومكروها لخوف الجور) فإن تيقنه حرم ذلك."

(كتاب النكاح، 7/3، ط: سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144310101098

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں