ہمارے علاقے میں بعض لوگ علماء کے کہنے پر زکوٰۃ ان نوجوانوں کو دیتے ہیں جن کے والدین زندہ ہوں اور جائیداد ان کے والدین کی ملکیت میں ہوتی ہے، خواہ والدین صاحبِ نصاب ہوں یا نہ ہوں، تو کیا ان نوجوانوں کو زکوٰۃ دے سکتے ہیں ؟اور اگر والدین صاحبِ نصاب ہوں تو بھی دے سکتے ہیں یا نہیں ؟
نوٹ:اور ان میں بعض جوان شادی شدہ بھی ہوتے ہیں، لیکن گھر کے امور میں والدین کے ماتحت ہوتے ہیں ،یعنی سب کچھ والد کی ملکیت میں ہوتا ہے۔
صورت مسئولہ میں اگر یہ نوجوان مالی اعتبار سے زکوۃ کےمستحق ہوں اور سید نہ ہوں تو ان کو زکوۃ دینا جائز ہے،چاہےوالد صاحب نصاب ہویانہ ہو۔
فتاوی عالمگیری میں ہے:
"لا يجوز دفع الزكاة إلى من يملك نصابا أي مال كان دنانير أو دراهم أو سوائم أو عروضا للتجارة أو لغير التجارة فاضلا عن حاجته في جميع السنة هكذا في الزاهدي والشرط أن يكون فاضلا عن حاجته الأصلية، وهي مسكنه، وأثاث مسكنه وثيابه وخادمه، ومركبه وسلاحه، ويجوز دفعها إلى من يملك أقل من النصاب، وإن كان صحيحا مكتسبا كذا في الزاهدي.
ولا يجوز دفعها إلى ولد الغني الصغير كذا في التبيين. ولو كان كبيرا فقيرا جاز، ويدفع إلى امرأة غني إذا كانت فقيرة،وكذا إلى البنت الكبيرة إذا كان أبوها غنيا؛ لأن قدر النفقة لا يغنيها وبغنى الأب والزوج لا تعد غنية كذا في الكافي."
(کتاب الزکاۃ، الباب السابع، ج:1، ص:189، ط: دار الفکر)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144511101025
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن