بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

4 جمادى الاخرى 1446ھ 07 دسمبر 2024 ء

دارالافتاء

 

صاحب نصاب طالبِ علم کا زکوٰۃ کی رقم سے وظیفہ لینا اور مدرسہ کا کھانا کھانے کا حکم


سوال

 میں صاحبِ نصاب ہوں،  میرے  والد صاحب سخت مزاج آدمی ہے، اس وجہ سے اپنے مال میں سے نہ قربانی کرسکتاہوں، نہ زکوٰۃ دے سکتاہوں،کچھ رقم میرے پاس ہے اور کچھ رقم میں نے  خفیہ طور پر  کسی شخص کومضاربت پر دی ہے، دونوں کو ملاکر نصاب کے برابر ہے  اور بندہ حال میں کسی مدرسہ میں طالب علم کی حیثیت سے تعلیم حاصل کررہاہے، کیا اس صورت میں زکوٰۃ  کی مدسے میرے لیے وظیفہ لینا جائز ہے؟ نیز میں مدرسہ میں کھانا کھاسکتاہوں یا نہیں؟

واضح رہے کہ مندرجہ بالا مال    والد صاحب کے سخت مزاجی کی وجہ سے میرے اختیار میں نہیں ہے، سید بھی نہیں ہوں۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں سائل کے بیان کے مطابق سائل کے پاس کچھ رقم موجود ہے اور کچھ رقم دوسرے شخص کو مضاربت پر دی ہے،اور دونوں ملاکر سائل   صاحب نصاب بنتا ہے، لہٰذا اگر سائل مدرسے میں مقیم ہے تو  زکوٰۃ کی مد سے وظیفہ لینا اور کھانا کھانا جائز نہیں ہے، تاہم اگر مدرسہ میں کھانا نفلی صدقات  کی رقم سے بنتا ہو تو سائل کےلیے مدرسے میں کھانا کھانا جائز ہے اوراگر سائل  مدرسہ میں مسافر ہے مقیم نہیں ہے اور گھر سے یامالِ مضاربت سے پیسے منگوانا ممکن نہیں ہے،  تو پیسوں کا انتظام ہونے تک سائل بقدرِضرورت زکوۃ  کا کھانا اور وظیفہ لے سکتا ہے۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(و) لا إلى (غني) ‌يملك ‌قدر نصاب فارغ عن حاجته الأصلية من أي مال كان".

(كتاب الزكوة، باب مصرف الزكوة والعشر،ج:2، ص:347، ط:سعيد)

وفيه ايضا:

"(قوله: لا يملك نصابا) قيد به؛ لأن ‌الفقر ‌شرط في الأصناف كلها إلا العامل وابن السبيل إذا كان له في وطنه مال بمنزلة الفقير بحر، ونقل ط عن الحموي أنه يشترط أن لا يكون هاشميا".

(كتاب الزكوة، باب مصرف الزكوة والعشر،ج:2، ص:343، ط:سعيد)

وفيه ايضا:

"وبهذا التعليل يقوى ما نسب للواقعات من أن طالب العلم يجوز له أخذ الزكاة ولو غنيا إذا فرغ نفسه لإفادة العلم واستفادته لعجزه عن الكسب والحاجة داعية إلى ما لا بد منه كذا ذكره المصنف ".

وفي الرد:

"(قوله: والحاجة داعية إلخ) الواو للحال. والمعنى أن الإنسان يحتاج إلى أشياء لا غنى عنها فحينئذ إذا لم يجز له قبول للزكاة مع عدم اكتسابه أنفق ما عنده ومكث محتاجا فينقطع عن الإفادة والاستفادة فيضعف الدين لعدم من يتحمله وهذا الفرع مخالف لإطلاقهم الحرمة في الغنى ولم يعتمده أحد ط. قلت: وهو كذلك. والأوجه تقييد بالفقير".

(كتاب الزكوة، باب مصرف الزكوة،ج:2، ص:340، ط:سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144306100674

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں