بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

سحر زدہ کی طلاق کا حکم


سوال

سحر شدہ کی طلاق کیا حکم ہے؟

جواب

واضح رہے کہ کسی شخص پر جادو ہونے کے باوجود اگر  اس کے ہوش و حواس برقرار ہوں، اپنے معاملات کو وہ سمجھ رہا ہو، منہ سے نکلنے والے الفاظ کے بارے میں اسے علم ہو تو ایسی حالت میں اگر وہ اپنی بیوی کو طلاق دے دے تو شرعاً ایسے شخص کی طلاق واقع ہوجاتی ہے، لیکن اگر جادو کا اثر اس قدر شدید ہو کہ اس کی وجہ سے سحر زدہ شخص کا ہوش و حواس قائم نہ رہے بلکہ وہ مدہوش ہوجائے اور اسے یہ معلوم نہ ہورہا ہو کہ وہ زبان سے کیا الفاظ کہہ رہا ہے، بے اختیار الفاظِ طلاق اس کی زبان سے نکل جائیں، بعد میں بھی اسے یاد نہ ہو کہ اس نے طلاق کے الفاظ بولے ہیں اور موقع پر موجود گواہوں سے اس کی تصدیق ہو تو اس صورت میں ایسے شخص کی طلاق واقع نہیں ہوگی۔

الفقہ الاسلامی و ادلتہ میں ہے:

"لا يصح طلاق المجنون، ومثله المغمى عليه، والمدهوش: وهو الذي اعترته حال انفعال لا يدري فيها ما يقول أو يفعل، أو يصل به الانفعال إلى درجة يغلب معها الخلل في أقواله وأفعاله، بسبب فرط الخوف أو الحزن أو الغضب."

(القسم السادس: الاحوال الشخصیہ، الباب الثانی: انحلال الزواج و آثارہ، الفصل الاول : الطلاق، ج: 9، ص: 6882، ط: دار الفکر)

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله والمجنون) قال في التلويح: الجنون اختلال القوة المميزة بين الأمور الحسنة والقبيحة المدركة للعواقب، بأن لا تظهر آثاره وتتعطل أفعالها، إما لنقصان جبل عليه دماغه في أصل الخلقة، وإما لخروج مزاج الدماغ عن الاعتدال بسبب خلط أو آفة، وإما لاستيلاء الشيطان عليه وإلقاء الخيالات الفاسدة إليه بحيث يفرح ويفزع من غير ما يصلح سببا."

(کتاب الطلاق، ج: 3، ص: 243، ط: ایچ ایم سعید)

فتاوی محمودیہ میں ہے:

"اگر جنون و سحر وغیرہ کی وجہ سے ہوش و حواس قائم نہ رہے اور یہ معلوم نہ ہو کہ زبان سے کیا الفاظ کہہ رہا ہے اور ان کا کیا نتیجہ ہوگا تو ایسی صورت میں طلاق واقع نہیں ہوئی، اگر یہ بات نہ ہو بلکہ الفاظ کے مطلب کو سمجھتا ہو پھر اس طرح کہے تو طلاق ہوجاتی ہے۔۔۔الخ"

(کتاب الطلاق، باب الطلاق بالکتابۃ، ج: 12، ص: 651، ط: ادارۃ الفاروق)

فقط و اللہ اعلم


فتوی نمبر : 144308100100

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں