بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

شہادت سے رجوع کرنے کا حکم


سوال

دو بھائیوں  نے ایک مل کر  زمین خریدی ،اور آدھے آدھے پیسے دیے ،بعدمیں  ایک بھائی نے اپنے یہ آدھے پیسے وصول کر کے شرکت کو ختم کر دیا ،اس طرح پوری زمین ایک بھائی کی ہو گئی ،جس بھائی نے کل زمین خرید لی اس نے یہ زمین بیچ کر دو فلیٹ خرید لیے اور اس بھائی کو ایک فلیٹ اور پارکنگ  کی جگہ رہنے کے لیے دے دی ،پھر ان بھائیوں کا آپس میں جھگڑا ہو گیا  اور بھائی جس کو عاریۃ یہ زمین دی گئی تھی اس نے اس فلیٹ میں جس میں وہ رہ رہا تھا ملکیت کا دعوی کر دیا ،اور میں نے اس بنیاد پر کہ دونوں بھائی پہلی والی زمین میں آپس میں شریک تھے لیکن مجھے اس بات کا علم نہیں تھا کہ مدعی بھائی نے شراکت ختم کر دی تھی  مدعی بھائی کے حق میں گواہی دے دی اور فیصلہ مدعی بھائی کے حق میں ہو گیا ،بعد میں تحقیق سے مجھے  معلوم ہوا کہ معاملہ تو ایسا نہیں تھا بلکہ مدعی بھائی کا تو اس فلیٹ میں کوئی حق نہیں تھا ،کیوں کہ وہ تو پہلی والی زمین سے شراکت ختم کر چکا تھا اور پیسے بھی وصول کر چکا تھا ۔اب میں نے جو نہ جاننے کی وجہ سے جھوٹی گواہی دے دی اس کا کیا حکم ہے اور میں اس کے ازالہ کے لیے اب کیا کروں ،راہ نمائی فرمائیں ۔

جواب

صورتِ مسئولہ  میں سائل اپنے  گواہی سے رجوع کرلے ،شہادت سے رجوع کا حکم یہ ہے کہ اس گواہی کی وجہ سے مدعی علیہ کو جو نقصان پہنچا ہے تو رجوع کرنے والاگواہوں کی تعداد کے بقدر  اپنے حصہ کا ضمان ادا کرے گا ،مثلاًاگر فیصلہ دو گواہوں کی گواہی پر ہوا ہے تو رجوع کرنے والا  اس گھر کی آدھی قیمت بطور ضمان کے مدعی علیہ کو ادا کرے ،اور اگر تین گواہوں کی بنیاد پر ہوا ہے تو ایک تہائی قیمت ادا کرے گا ۔پس سائل اسی حساب سے دوسرے بھائی کو اپنے حصے کے بقدر گھر کی قیمت بطور ضمان کے ادا کر ے گا ۔ 

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"إن رجع أحدهما ضمن النصف والعبرة لمن بقي لا لمن رجع، فإن شهد ثلاثة ورجع واحد لم يضمن، وإن رجع آخر ضمنا النصف، كذا في الكنز."

(کتاب الشہادات ،باب فی الرجوع بعض الشہود ،ج:3،ص:535،ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144509102407

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں