بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

صحابی کی دجال سے ملاقات


سوال

کیا کوئی صحابی اپنی زندگی میں دجال سے ملا ہے یا نہیں ؟ کیا کوئی ایسا واقعہ ملتا ہے یا نہیں ؟ ہمارے علاقے میں لوگ اس طرح کا کوئی واقعہ بیان کرتے ہیں ؟

جواب

واضح رہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اجمعین  میں سے   حضرت تمیم داری رضی اللہ تعالی عنہ کا دجال سے ملاقات کرنے کا واقعہ مذکور ہے۔

صحیح مسلم شریف کی حدیث مبارکہ ہے:

" حدثنا عامر بن شراحيل الشعبي شعیب همدان، انه سال فاطمة بنت قيس اخت الضحاك بن قيس، وكانت من المهاجرات الاول، فقال: حدثيني حديثا سمعتيه من رسول الله صلى الله عليه وسلم لا تسنديه إلى احد غيره، فقالت: لئن شئت لافعلن؟،فقال لها: أجل حدثيني فقالت ۔۔۔۔سمعت نداء المنادي، منادي رسول الله صلى الله عليه وسلم، ينادي: الصلاة جامعة، فخرجت إلى المسجد فصليت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم، فكنت في صف النساء التي تلي ظهور القوم، فلما قضى رسول الله صلى الله عليه وسلم صلاته جلس على المنبر وهو يضحك، فقال: " ليلزم كل إنسان مصلاه "، ثم قال: " اتدرون لم جمعتكم؟ "، قالوا: الله ورسوله اعلم، قال: " إني والله ما جمعتكم لرغبة ولا لرهبة، ولكن جمعتكم لان تميما الداري كان رجلا نصرانيا، فجاء فبايع واسلم، وحدثني حديثا وافق الذي كنت احدثكم عن مسيح الدجال، حدثني انه ركب في سفينة بحرية مع ثلاثين رجلا من لخم وجذام، فلعب بهم الموج شهرا في البحر، ثم ارفئوا إلى جزيرة في البحر حتى مغرب الشمس، فجلسوا في اقرب السفينة، فدخلوا الجزيرة، فلقيتهم دابة اهلب كثير الشعر لا يدرون ما قبله من دبره من كثرة الشعر، فقالوا: ويلك ما انت؟، فقالت: انا الجساسة، قالوا: وما الجساسة؟، قالت: ايها القوم انطلقوا إلى هذا الرجل في الدير، فإنه إلى خبركم بالاشواق، قال: لما سمت لنا رجلا، فرقنا منها ان تكون شيطانة، قال: فانطلقنا سراعا حتى دخلنا الدير، فإذا فيه اعظم إنسان رايناه قط خلقا، واشده وثاقا مجموعة يداه إلى عنقه ما بين ركبتيه إلى كعبيه بالحديد، قلنا: ويلك ما انت؟، قال: قد قدرتم على خبري، فاخبروني ما انتم؟، قالوا: نحن اناس من العرب ركبنا في سفينة بحرية، فصادفنا البحر حين اغتلم، فلعب بنا الموج شهرا، ثم ارفانا إلى جزيرتك هذه، فجلسنا في اقربها فدخلنا الجزيرة، فلقيتنا دابة اهلب كثير الشعر لا يدرى ما قبله من دبره من كثرة الشعر، فقلنا: ويلك ما انت؟، فقالت: انا الجساسة، قلنا: وما الجساسة؟، قالت: اعمدوا إلى هذا الرجل في الدير، فإنه إلى خبركم بالاشواق، فاقبلنا إليك سراعا وفزعنا منها، ولم نامن ان تكون شيطانة، فقال: اخبروني عن نخل بيسان؟، قلنا: عن اي شانها تستخبر؟، قال: اسالكم عن نخلها هل يثمر؟، قلنا له: نعم، قال: اما إنه يوشك ان لا تثمر؟، قال: اخبروني عن بحيرة الطبرية؟، قلنا: عن اي شانها تستخبر؟، قال: هل فيها ماء؟، قالوا: هي كثيرة الماء، قال: اما إن ماءها يوشك ان يذهب؟، قال: اخبروني عن عين زغر؟، قالوا: عن اي شانها تستخبر؟، قال: هل في العين ماء وهل يزرع اهلها بماء العين؟، قلنا له: نعم، هي كثيرة الماء واهلها يزرعون من مائها، قال: اخبروني عن نبي الاميين ما فعل؟، قالوا: قد خرج من مكة ونزل يثرب، قال: اقاتله العرب؟، قلنا: نعم، قال: كيف صنع بهم، فاخبرناه انه قد ظهر على من يليه من العرب واطاعوه، قال لهم: قد كان ذلك؟، قلنا: نعم، قال: اما إن ذاك خير لهم ان يطيعوه، وإني مخبركم عني إني انا المسيح، وإني اوشك ان يؤذن لي في الخروج، فاخرج فاسير في الارض، فلا ادع قرية إلا هبطتها في اربعين ليلة غير مكة، وطيبة فهما محرمتان علي كلتاهما، كلما اردت ان ادخل واحدة او واحدا منهما استقبلني ملك بيده السيف صلتا يصدني عنها، وإن على كل نقب منها ملائكة يحرسونها، قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: وطعن بمخصرته في المنبر، هذه طيبة، هذه طيبة، هذه طيبة يعني المدينة، الا هل كنت حدثتكم ذلك؟، فقال الناس: نعم، فإنه اعجبني حديث تميم انه وافق الذي كنت احدثكم عنه وعن المدينة ومكة، الا إنه في بحر الشام او بحر اليمن، لا بل من قبل المشرق ما هو من قبل المشرق، ما هو من قبل المشرق، ما هو واوما بيده إلى المشرق "، قالت: فحفظت هذا من رسول الله صلى الله عليه وسلم۔"

(كتاب الفتن وأشراط الساعة،باب قصة الجساسة،ج:4،ص:2262،ط:داراحیاءالتراث)

ترجمہ:‏‏‏‏ سیدنا عامر بن شراحیل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا سے، جو بہن تھیں ضحاک بن قیس رضی اللہ عنہ کی اور ان عورتوں میں سے تھیں جنہوں نے پہلے ہجرت کی تھی کہ بیان کرو مجھ سے ایک حدیث جو تم نے سنی ہو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اور مت واسطہ کرنا اس میں اور کسی کا، وہ بولیں: اچھا اگر تم یہ چاہتے ہو تو میں بیان کروں گی۔ انہوں نے کہا: ہاں بیان کرو۔حضرت فاطمہ بنت قیسبیان کرتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منادی کو سنا وہ اعلان کررہا تھا الصلاةُ جامعةٌ میں نماز کے لئے نکلی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ (مردوں کے پیچھے عورتوں کی صف اول میں) (ظہرکی) نماز ادا کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوکر منبر پر بیٹھے (جبکہ اس دن سے پہلے سوائے جمعہ کے منبر پر نہیں چڑھتے تھے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ پر اس وقت مسکراہٹ تھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہر شخص اپنی اپنی جگہ بیٹھا رہے، اس کے بعدآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جانتے ہو میں نے تم کو کیوں جمع کیاہے انھوں نے عرض کیا ”اللہ و رسولہ اعلم“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بخدا میں نے تم کو نہ تو مال وغیرہ کی تقسیم کیلئے جمع کیا ہے نہ کسی جہاد کی تیاری کے لئے بس صرف اس بات کے لئے جمع کیا ہے کہ تمیم داری پہلے نصرانی تھا وہ آیا اور مسلمان ہوگیا اور مجھ سے ایک قصہ بیان کرتا ہے (میں اس سے خوش ہوا میں چاہتا ہوں کہ تم سے بیان کروں) جس سے تم کو میرے اس بیان کی تصدیق ہوجائے گی جو میں نے کبھی دجال کے متعلق تمہارے سامنے ذکر کیا تھا ، وہ کہتا ہے کہ ایک بڑی کشتی میں سوار ہوا جس پر سمندروں میں سفر کیاجاتا ہے ان کے ساتھ قبیلہ لخم اور جذام کے تیس آدمی اور تھے سمندر کا طوفان ایک ماہ تک انکا تماشا کرتا رہا، آخر مغربی جانب ان کو ایک جزیرہ نظر آیا جس کو دیکھ کر وہ بہت مسرور ہوئے اور چھوٹی کشتیوں میں بیٹھ کر اس جزیرہ پر اتر گئے سامنے سے ان کو جانور کی شکل کی ایک چیز نظر پڑی جس کے سارے جسم پر بال ہی بال تھے کہ ان میں اس کے اعضائے مستورہ تک کچھ نظر نہ آتے تھے، لوگوں نے اس سے کہا کمبخت تو کیا بلا ہے؟ وہ بولی میں دجال کی جاسوس ہوں چلو اس گرجے میں وہاں ایک شخص ہے جو تمہاری خبروں کا مشتاق ہے، یہ کہتے ہیں کہ جب اس نے ایک آدمی کا ذکر کیا تو اب ہم کو ڈر لگا کہ کہیں وہ کوئی جن نہ ہو، ہم لپک کر گرجے میں پہنچے تو ہم نے ایک بڑا قوی ہیکل شخص دیکھا کہ اس سے قبل ہم نے ویسا کوئی شخص نہیں دیکھا تھا اس کے ہاتھ گردن سے ملاکر اور اس کے پیر گھٹنوں سے لے کر ٹخنوں تک لوہے کی زنجیروں سے نہایت مضبوطی سے جکڑے ہوئے تھے، ہم نے کہا تیرا ناس ہو تو کون ہے؟ وہ بولا تم کو میرا پتہ کچھ نہ کچھ لگ ہی گیا اب تم بتاؤ تم کون لوگ ہو؟ انھوں نے کہا ہم عرب کے باشندے ہیں ہم ایک بڑی کشتی میں سفر کررہے تھے سمندر میں طوفان آیا اور ایک ماہ تک رہا۔ اس کے بعد ہم اس جزیرہ میں آئے تو یہاں ہمیں ایک جانور نظر پڑا جس کے تمام جسم پر بال ہی بال تھے اس نے کہا میں (جساسہ) جاسوس ہوں چلو اس شخص کی طرف جو اس گرجے میں ہے اسلئے ہم جلدی جلدی تیرے پاس آگئے، اس نے کہا مجھے یہ بتاؤ کہ بیسان (شام میں ایک بستی کا نام ہے) کی کھجوروں میں پھل آتا ہے یا نہیں ہم نے کہا ہاں آتا ہے،اس نے کہا وہ وقت قریب ہے جب اس میں پھل نہ آئے،پھر اس نے پوچھا اچھا بُحیرئہ طبریہ کے متعلق بتاؤ اس میں پانی ہے یا نہیں؟ ہم نے کہا بہت ہے اس نے کہا وہ زمانہ قریب ہے جبکہ اس میں پانی نہ رہے گا پھر اس نے پوچھا زُغَر (شام میں ایک بستی کا نام ہے) کے چشمہ کے متعلق بتاؤ اس میں پانی ہے یا نہیں اور اُس بستی والے اپنے کھیتوں کو اس کا پانی دیتے ہیں یا نہیں؟ ہم نے کہا اس میں بھی پانی بہت ہے اور بستی والے اسی کے پانی سے اپنے کھیتوں کو سیراب کرتے ہیں، پھر اس نے کہا اچھا نبی الامیین کاکچھ حال سناؤ ہم نے کہا وہ مکہ سے ہجرت کرکے مدینہ تشریف لے آئے ہیں، اس نے پوچھا کیا عرب کے لوگوں نے ان کے ساتھ جنگ کی ہے؟ ہم نے کہا ہاں، اس نے پوچھا اچھا پھر کیا نتیجہ رہا؟ ہم نے بتایا کہ وہ اپنے گرد و نواح پر تو غالب آچکے ہیں اور لوگ ان کی اطاعت قبول کرچکے ہیں، اس نے کہا سن لو: ان کے حق میں یہی بہتر تھا کہ ان کی اطاعت کرلیں (نبی آخر الزماں کی بعثت کی خبر سن کر اس نے مارے خوشی کے چھلانگ لگائی) اور اب میں تم کو اپنے متعلق بتاتا ہوں، میں مسیح دجال ہوں اور وہ وقت قریب ہے جب مجھ کو یہاں سے باہر نکلنے کی اجازت مل جائے گی میں باہر نکل کر تمام زمین میں گھوم جاؤں گا اور چالیس دن کے اندر اندر کوئی بستی ایسی نہ رہ جائے گی جس میں داخل نہ ہوں بجز مکہ اور طیبہ کے کہ ان دونوں مقامات میں میرا داخلہ ممنوع ہے، جب ان دونوں میں سے کسی بستی میں داخل ہونے کا ارادہ کروں گا اس وقت ایک فرشتہ ہاتھ میں ننگی تلوار لئے سامنے آکر مجھے داخل ہونے سے روک دے گا اور ان مقامات کے جتنے راستے ہیں ان سب پر فرشتے ہوں گے جو ان کی حفاظت کررہے ہوں گے۔

فاطمہ بنت قیس کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی لکڑی منبر پر مار کر فرمایا کہ وہ طیبہ یہی مدینہ ہے یہ جملہ تین بار فرمایا دیکھو کیا یہی بات میں نے تم سے بیان نہیں کی تھی لوگوں نے کہا جی ہاں آپ نے بیان فرمائی تھی، اس کے بعد فرمایا دیکھو وہ بحر شام یا بحر یمن بلکہ مشرق کی جانب ہے اور اسی طرف ہاتھ سے اشارہ فرمایا۔

(ترجمان السنة،ج:4،ص:379،رقم :1613،ط:رحمانیہ) 

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144407101300

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں