بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

صحابی کی شان میں کوتاہی اور تجدیدِ نکاح


سوال

مجھے آپ سے ایک مسئلہ پوچھنا ہے، میں اس پر سخت پریشان اور نادم، اللّہ رب العالمین سے معافی کا طلب گار ہوں، صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین تمام میرے ایمان کا حصہ ہیں اور سب سچے ہیں، مگر مجھ سے نادانستہ طور پر حضرت ابو سفیان رضی اللہ عنہ کے بارے میں سخت ترین جملہ نکل گیا، جس  پرسخت شرمندہ اور پریشان ہوں۔ پوچھنا یہ تھا کہ تجدیدِ ایمان تو اس وقت موجود لوگوں کے سامنے کر لیا تھا، اللّہ سے معافی بھی مانگ لی تھی اور توبہ استغفار کر رہا ہوں، ایک جگہ سے مسئلہ پوچھا تھا تو انہوں نے کہاکہ میاں بیوی دونوں بیٹھ کر ایجاب قبول کرلیں، کافی ہوگا، اب پوچھنا یہ ہے تجدیدِ نکاح کی یہی صورت ٹھیک ہے یا پھر ضرورت نہیں یا اگر ضرورت ہے تو کون سی صورت سب سے بہتر ہے؟

اللہ رحمتیں اور سلام بے حساب بھیجے آل ابوسفیان رضی اللہ اور ان کے بنو امیہ کے بہترین اہلِ ایمان پر اور اللّہ میری اس بات پر مجھے معاف کرے!

جواب

اہلِ سنت والجماعت کے نزدیک تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم برحق ہیں، اللہ تعالیٰ نے ان کو گناہوں پر باقی نہیں رکھا اور ان سب کو اللہ کی رضامندی کا پروانہ مل گیا ہے، ان کو برا بھلا کہنا یا ان کی شان میں کوتاہی کرنا کسی صورت میں جائز نہیں ہے۔

آپ نے صحابی رسول  حضرت ابو سفیان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حق میں کیا جملہ کہا تھا؟  یہ معلوم ہوئے بغیر اس کا حکم بیان نہیں کیا جاسکتا۔ 

البتہ اصولی طور پر تجدیدِ نکاح کا طریقہ ذیل میں نقل کیا جاتا ہے:

تجدیدِ نکاح کا مطلب ہے از سر نو نکاح کرنا، یا نکاح کو نیا کرنا ،  اور  اس کا طریقہ یہ ہے کہ دو مسلمان عاقل بالغ مردوں یا ایک مرد اور دو عورتوں کی موجودگی میں نئے مہر کے ساتھ ایجاب و قبول کیا جائے،   مثلاً: بیوی کہے: میں اپنے آپ کو آپ کے نکاح میں دیتی ہوں اورشوہر کہے: میں قبول کرتا ہوں۔

اور احتیاطاً تجدیدِ نکاح کیا جائے یا نکاح ٹوٹ جانے کے بعد  نکاح کیا جائے دونوں کا ایک ہی طریقہ ہے، البتہ جو نکاح بطورِاحتیاط کیا جائے اس میں نیامہر مقررکرنا شرط نہیں ہے۔

فقہاء نے لکھا ہے کہ  ناواقف لوگوں کو چاہیے کہ وہ مہینہ میں ایک یا دو مرتبہ نکاح کی تجدید کرلیا کریں  کہ غلطی  میں ان سے کوئی کفریہ کلمہ سرزد نہ ہوگیا ہو۔ صرف احتیاط کی بنا پر  نکاح کی تجدید کی گئی ہو تو نیا مہر متعین کرنا ضروری نہیں ہے، اور  اس نفسِ نکاح سے( جب کہ مہر میں اضافہ مقصود نہ ہو) مہر بھی لازم نہیں  ہوگا۔

بہر صورت آپ دو گواہوں کی موجودگی میں مہر کے ساتھ تجدیدِ نکاح کرلیں۔فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144107201048

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں