بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے زمانہ میں ایک عید کا تصور


سوال

 کیا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے  دورِ حکومت میں ایسا ہوتا تھا کہ صرف مکہ میں اگر انتیس رمضان کے بعد شوال کا چاند نظر آ جاتا، تو پوری اسلامی حکومت  (بائیس لاکھ مربع میل) میں اگلا دن عید کا سمجھا جاتا تھا؟ یا علاقوں کے اعتبار سے تقسیم تھی؟

جواب

حضرت عمر رضي الله تعاليٰ عنہ  کے دورِ حکومت میں یا دیگر  صحابہ کرام ؓ ، تابعین اور تبع تابعین کے  مبارک دور میں اس کی نظیر نہیں ملتی کہ انہوں نے   مختلف علاقوں کے رہنے والے تمام مسلمانوں کے لیے ایک ہی دن روزہ یا ایک ہی دن عید کا  اہتمام  کیا ہو۔

اس لیے   تمام اسلامی ممالک  میں یا کسی ایک اسلامی ملک میں   بیک وقت عید منانا یا رمضان المبارک  کا  شروع ہوجانا  شرعاً ضروری نہیں ہے،کیوں کہ  ہماری  عیدیں اور رمضان  دیگر اقوام کے تہواروں کی طرح  تہوار نہیں، بلکہ خصوصی عبادت  کے اوقات ہیں،  جیسے  دیگر عبادات میں وقت یا تاریخ کا ایک ہونا  شرعاً ضروری نہیں، بلکہ  ہم دیکھتے ہیں کہ  نماز کے اوقات مختلف ملکوں میں یا ایک ملک کے مختلف شہروں میں الگ  الگ ہوتے  ہیں، ہماری شریعت میں عبادات کا تعلق ظاہری علامات سے جوڑ کر ہمیں بہت آسانی دی گئی ہے۔  

  نیز اگر پوری دنیا میں  ایک ہی تاریخ میں عیدمنانا  مطلوب ہوتا تو  نبی کریمﷺ  کی مدنی زندگی میں، خلفائے راشدین، صحابہ، تابعین، تبع تابعین اور ائمہ مجتہدین  کے دور میں اس کی کوئی اصل ہوتی، حال آ ں کہ نبی کریمﷺ، صحابہ، تابعین اور تبع تابعین کے مبارک دور میں اس کا اہتمام نہیں کیا گیا، اور نہ ہی اس کے لیے کسی نے آواز اٹھائی، جیساکہ حضرت عبداللہ بن عباس  رضی اللہ عنہما کی روایت سے صحابہ  کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے زمانے میں اس کا ثبوت ملتا ہے کہ ملک شام میں جمعہ کو چاند دیکھا گیا اور مدینہ میں اس دن چاند نظر نہیں آیا،  شام  کے  لوگوں نے  ہفتہ کے دن روزہ رکھا ، جب کہ مدینہ کے لوگوں  نے اتوار سے رمضان شروع کیا، مدینہ میں حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہما کو   حضرت کریب کی  شہادت سے  رمضان ختم ہونے سے پہلے  شام میں جمعہ کے دن چاند دیکھے جانے کا علم ہوگیا تھا،  اگرپوری دنیا میں عید کی نماز ایک دن میں پڑھنا اور رمضان کا روزہ ایک ہی دن میں شروع کرنا شرعاً  کوئی پسندیدہ چیز ہوتی تو فوری طور پر  ملک شام سے مزید شہادت طلب کرکے  یہ وحدت قائم  کی جاسکتی تھی،  اوریہ کوئی مشکل بھی نہ تھا، تاہم  حضرت ابن عباس ؓ نے  حضرت کریبؓ کے اصرار کے باوجود اس کی طرف کوئی توجہ نہیں کی، اس لیے تمام مسلمانوں کے لیے رمضان کا روزہ ایک دن میں شروع کرنا ، اور عیدایک ہی تاریخ میں کرنا، اور اسے ضروری یا مستحسن سمجھنا، یہ خیال درست نہیں ہے۔

نیز اسلامی عبادات  مثلاً روزہ، حج ، زکاۃ وغیرہ کا تعلق  قمری مہینہ سے ہے، اور خصوصاً  رمضان المبارک  کی تو ابتدا  ہی چاند دیکھنے پر موقوف ہے، ارشادِ باری تعالی ہے : { فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ } [البقرة: 185] اور اس کے لیے رسول اللہ ﷺ نے ایک آسان  اور عام فہم طریقہ بتادیا کہ  چاند دیکھنے پر روزہ رکھو ، اور  چاند دیکھنے پر افطار کرو، تاکہ ایک عام فہم،سادہ لوح مسلمان کے لیے بھی فرائض کی ادائیگی آسان ہو، لہذا روزہ اور عید کا مدار چاند کی رؤ یت پر ہے، یعنی اگر چاند نظر آئے تو رمضان شروع ہونے کا حکم ہوگا، اور چاند نظر نہ آئے تو رمضان کا آغاز نہیں ہوگا، یہی حکم عید کا بھی ہے۔ خواہ آسمان ابر آلود ہونے کی وجہ سے چاند نظر نہ آئے، اور فلکیات کے قواعد کے مطابق بادلوں کے پیچھے اس کا وجود یقینی ہو، تب بھی ظاہری رؤیت کا اعتبار کیا جائے گا۔

البتہ  کسی علاقے میں کوئی قاضی یا حکومت کی طرف سے مقرر کردہ  کمیٹی پورے  ضلع یا صوبے  یا پورے ملک  کے لیے ہو  اور وہ شرعی شہادت  موصول ہونے پر  چاند نظر آنے کا اعلان کردے تو اس کے فیصلے پر اپنی حدود اور ولایت میں  ان لوگوں پرجن تک فیصلہ اور اعلان یقینی اور معتبر ذریعے سے پہنچ جائے  عمل  کرنا واجب ہوگا،  چوں کہ  مرکزی رؤیت ہلال کمیٹی  قاضی شرعی کی  حیثیت    رکھتی ہے، لہذا شہادت موصول ہونے پر اگر وہ اعلان کردے تو ملک میں  جن لوگوں تک یہ اعلان    معتبر ذرائع سے پہنچ جائے ، ان پر روزہ رکھنا یا عید کرنا لازم ہوگا۔فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144210200632

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں