بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

صحابہ کرام کے ناموں کے ساتھ رضی اللہ عنہ لکھنے کی وجہ


سوال

ایک رافضی کا سوال ہے کہ اگر اللہ صحابہ سے راضی ہے تو پھر "رضی اللہ عنہ" کیوں لکھتے ہو؟

جواب

"رضی اللہ عنہ" اصل کے اعتبار سے جملہ خبریہ ہے، یعنی ایسا جملہ ہے جس میں ماضی میں ہونے والے کسی کام کی خبر دی جاتی ہے، لہٰذا اصل کے مطابق اس کا ترجمہ ہوا: "اللہ ان (صحابہ کرام) سے راضی ہوگیا"، اور یہ خبر اللہ تعالیٰ نے خود قرآنِ کریم میں کئی مقامات پر دی ہے؛ اس بنا پر اہلِ سنت و الجماعت کا معمول ہے کہ وہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے نام کے ساتھ "رضی اللہ عنہ" ذکر کرتے ہیں، الغرض اصل کے اعتبار سے اس میں کسی تاویل کی ضرورت نہیں ہے، بلکہ اللہ تعالیٰ کی بتائی گئی خبر کو صحابہ کرام کے مقام کی عظمت بتانے کے لیے ذکر کیا جاتاہے۔

دوسرا پہلو اس جملے میں یہ ہے کہ یہ ایک دعائیہ کلمہ ہے، جیساکہ عربی زبان میں ماضی کا صیغہ بعض مرتبہ بطورِ دعا استعمال ہوتاہے، اور دعا کے لیے یہ ضروری نہیں ہوتا کہ اسی چیز کی دعا کی جائے جو حاصل نہ ہو، بلکہ بعض اوقات نعمت کے حصول کے بعد اس پر مداومت یا اس میں ترقی کے لیے بھی دعا کی جاتی ہے، چناں چہ ہر مسلمان ہر نماز کی ہر رکعت میں سورۂ فاتحہ کے ضمن میں ہدایت کی دعا مانگتاہے، حال آں کہ اسے ہدایت نصیب ہوچکی ہے تب ہی وہ اللہ تعالیٰ کے حضور نماز میں مشغول ہے، اسی طرح انبیاءِ کرام علیہم الصلاۃ و السلام پر اللہ تعالیٰ کی رحمت کا نزول یقینی ہونے کے باوجود ہمیں درود و سلام کا حکم دیا گیا ہے، جب کہ نبی ﷺ ہماری دعا کے محتاج نہیں ہیں کہ اگر ہم رحمت اور سلامتی کے نزول کی دعا نہ کریں تو ان پر رحمت نازل نہ ہو، بلکہ ان پر ہر وقت ہر آن اللہ تعالیٰ کی بے شمار رحمتوں کا نزول ہورہاہے، اس کے باوجود ہمیں ان پر درود و سلام بھیجنے کا حکم دیا گیا ہے، خلاصہ یہ کہ دعا صرف اس چیز کی نہیں مانگی جاتی جو حاصل نہ ہوئی ہو، بلکہ بسا اوقات حاصل شدہ نعمت یا مقام کے دوام یا اس میں اضافے اور ترقی کے لیے مسلسل دعا کی جاتی ہے، چناں چہ  یہ دعائیہ جملہ (رضی اللہ عنہ) بطورِ اعزار اور تکریم کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ناموں کے ساتھ استعمال کیا جاتا ہے، یہ اعزار ان کو اللہ رب العزت نے بخشا ہے اللہ ان سے راضی ہے اور وہ ان سے راضی ہیں، اسی تمغہ اعزاز کے اظہار اور دعائیہ کلمہ کے طور پر   صحابہ کرام کے ناموں کے ساتھ اس کو لکھا جاتا ہے، جیساکہ انبیاء کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام کے ناموں کے ساتھ علیہ الصلاۃ والسلام کا دعائیہ کلمہ استعمال ہوتا  ہے، اور انبیاء اور صحابہ کرام کو دعا دینے سے خود دعا دینے والے کی شان  میں اضافہ ہوتا ہے۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے: 

{لَا تَجِدُ قَوْمًا يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ يُوَادُّونَ مَنْ حَادَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَلَوْ كَانُوا آبَاءَهُمْ أَوْ أَبْنَاءَهُمْ أَوْ إِخْوَانَهُمْ أَوْ عَشِيرَتَهُمْ أُولَئِكَ كَتَبَ فِي قُلُوبِهِمُ الْإِيمَانَ وَأَيَّدَهُمْ بِرُوحٍ مِنْهُ وَيُدْخِلُهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ أُولَئِكَ حِزْبُ اللَّهِ أَلَا إِنَّ حِزْبَ اللَّهِ هُمُ الْمُفْلِحُونَ} (المجادلة :22) 

ترجمه:   جو لوگ اللہ پر اور قیامت کے دن پر (پورا پورا) ایمان رکھتے ہیں آپ ان کو نہ دیکھیں گے کہ ایسے شخصوں سے دوستی رکھتے ہیں جو اللہ اور رسول کے برخلاف ہیں گو وہ ان کے باپ یا بیٹے یا بھائی یا کنبہ ہی کیوں نہ ہوں ان لوگوں کے دلوں میں اللہ تعالیٰ نے ایمان ثبت کردیا ہے اور ان (قلوب) کو اپنے فیض سے قوت دی ہے (فیض سے مراد نور ہے) اور ان کو ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے سے نہریں جاری ہوں گی جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے اللہ تعالیٰ ان سے راضی ہوگا اور وہ اللہ سے راضی ہوں گے۔ یہ لوگ اللہ کا گروہ ہیں، خوب سن لو کہ اللہ ہی کا گروہ فلاح پانے والا ہے۔ (بيان القرآن)

تفسير ابن كثير ط العلمية (8 / 84):

 "وَفِي قَوْلِهِ تعالى: رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ سِرٌّ بَدِيعٌ وَهُوَ أَنَّهُ لَمَّا سَخِطُوا عَلَى الْقَرَائِبِ وَالْعَشَائِرِ في الله تعالى عَوَّضَهُمُ اللَّهُ بِالرِّضَا عَنْهُمْ وَأَرْضَاهُمْ عَنْهُ بِمَا أَعْطَاهُمْ مِنَ النَّعِيمِ الْمُقِيمِ وَالْفَوْزِ الْعَظِيمِ وَالْفَضْلِ العميم. وقوله تعالى: {أُولئِكَ حِزْبُ اللَّهِ أَلا إِنَّ حِزْبَ اللَّهِ هُمُ الْمُفْلِحُونَ} أَيْ هَؤُلَاءِ حِزْبُ اللَّهِ أَيْ عباد الله وأهل كرامته. وقوله تعالى: {أَلا إِنَّ حِزْبَ اللَّهِ هُمُ الْمُفْلِحُونَ} تَنْوِيهٌ بفلاحهم وسعادتهم ونصرتهم في الدنيا والآخرة في مقابلة ما ذكر عَنْ أُولَئِكَ بِأَنَّهُمْ حِزْبُ الشَّيْطَانِ ثُمَّ قَالَ: {أَلا إِنَّ حِزْبَ الشَّيْطانِ هُمُ الْخاسِرُونَ}".

صفوة التفاسير (3 / 325):

{رَضِيَ الله عَنْهُمْ وَرَضُواْ عَنْهُ} أي قبل الله أعمالهم فرضي عنهم، ونالوا ثوابه فرضوا بما أعطاهم، وإِنما ذكر رضوانه عليهم بعدد دخولهم الجنة لأنه أعظم النعم، وأجل المراتب قال ابن كثير: وفي الآية سر بديع وهو أنهم لما سخطوا على الألقاب والعشائر في الله تعالى، عوَّضهم الله بالرضا عنهم وأرضاهم بما أعطاهم من النعيم المقيم، والفوز العظيم {أولئك حِزْبُ الله} أي أولئك جماعة الله وخاصته وأولياؤه{أَلاَ إِنَّ حِزْبَ الله هُمُ المفلحون} أي هم الفائزون بخيري الدنيا والآخرة، وهذا في مقابلة قوله تعالى {أولئك حِزْبُ الشَّيْطَانِ أَلاَ إِنَّ حِزْبَ الشَّيْطَانِ هُمُ الخَاسِرُونَ}

فقط واللہ اعلم

 


فتوی نمبر : 144201200020

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں