بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کسی شخص کا "صحابہ کرام گمراہ ہوچکے تھے" کہنے کا حکم اور نکاح پر اس کے اثرات


سوال

میں فیس بک اور یوٹیوب پر اکثر مناظرے اور دین کے متعلق معلومات پر مشتمل ویڈیوز دیکھتا تھا، اس دوران میں  ایک شیعہ عالم کو بھی سنتا تھا، انہوں نے ایک دن کہا کہ صحابہ کرام نبی کریمﷺ کے بعد گم راہ ہوگئے تھے، میں اسے حقیقت سمجھ بیٹھا اور میں نے بھی  یہی جملہ کہا کہ" صحابہ کرام گمراہ ہوچکے تھے، اب میں اپنی اس بات پر  نادم ہوں، نبی کریمﷺ کے جملہ صحابہ کرام رضوا ن اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین پر  جان قربان کرتا ہوں، پوچھنا یہ ہے کہ اس جملے سے میں دائرہ اسلام سے خارج ہوگیا؟ اگر ہاں تو اس سے میرے نکاح پر کوئی اثر پڑا، کیوں کہ میں شادی شدہ ہوں اور میرے دو بچے  ہیں۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں سائل نے چوں کہ مطلقاً  یہ کہا کہ " صحابہ کرام  گمراہ ہوچکے تھے"  اور شیعہ عالم کی بات پر اعتماد  کرتے ہوئے اس کا عقیدہ بھی رکھا ، اس جملے  کے عموم میں  تمام صحابہ کرام بشمول حضراتِ شیخین  (حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما) کے  شامل ہیں، لہٰذا سائل کا مذکورہ جملہ تمام صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین   کے حق میں گستاخی اور توہین ہے، جس کی  وجہ سے  سائل دائرۂ اسلام سے خارج ہوگیا اور اس کا نکاح بھی ٹوٹ گیا۔

اب سائل کو چاہیے کہ اپنے اس جملے پر سچے دل سے توبہ  و استغفار کرکے نئے سرے سے کلمہ طیبہ پڑھے، اور آئندہ کے لیے ایسے کفریہ کلمات کہنے سے اجتناب کرے، نیز سائل اگر اپنی بیوی کے ساتھ رہنا چاہتا ہے  تو اس کے لیے نئے مہر کے ساتھ از سرِ نو نکاح کرے، تجدیدِ نکاح کیے  بغیر سائل کے لیے اپنی بیوی کے ساتھ رہنا جائز نہیں ہے۔

تجدیدِ نکاح کرنے کے بعد آئندہ سائل کو تینوں طلاقوں کا حق حاصل ہوگا۔

فیض الباری میں ہے:

‌"والمحقق أن سب الصحابة رضي الله عنهم كلهم أو أكثرهم كفر."

(کتاب الایمان،ج1،ص195،ط:دار الکتاب العلمیۃ)

الدر مع الرد میں ہے:

نقل عن البزازية عن الخلاصة: أن الرافضي إذا كان يسب الشيخين و يعلنها فهو كافر... و سب أحد من الصحابة و بغضه لا يكون كفراً لكن يضلل''.

(مطلب مهم في حكم سب الشيخين 4/ 237، ط: سعيد)

جمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر "(1/ 687):

"فما يكون كفرًا بالاتفاق يوجب إحباط العمل كما في المرتد وتلزم إعادة الحج إن كان قد حجّ ويكون وطؤه حينئذ مع امرأته زنا والولد الحاصل منه في هذه الحالة ولد الزنا، ثم إن أتى بكلمة الشهادة على وجه العادة لم ينفعه ما لم يرجع عما قاله؛ لأنه بالإتيان بكلمة الشهادة لايرتفع الكفر، وما كان في كونه كفرًا اختلاف يؤمر قائله بتجديد النكاح وبالتوبة والرجوع عن ذلك احتياطًا، وما كان خطأً من الألفاظ لايوجب الكفر فقائله مؤمن على حاله ولايؤمر بتجديد النكاح ولكن يؤمر بالاستغفار والرجوع عن ذلك، هذا إذا تكلم الزوج، فإن تكلمت الزوجة ففيه اختلاف في إفساد النكاح، وعامة علماء بخارى على إفساده لكن يجبر على النكاح ولو بدينار وهذا بغير الطلاق".

الدر مع الرد میں ہے:

"(وارتداد أحدهما) أي الزوجين (فسخ) ‌فلا ‌ينقص ‌عددا (عاجل)."

(کتاب النکاح،باب نکاح الکافر،ج3،ص193،ط:سعید)

الاختیار لتعلیل المختار میں ہے:

"لأن الشتم رمي بما يعيبه ويشينه."

( کتاب الحدود، باب حد القذف 4/ 93 ط: مطبعة الحلبي)

تفسیرالمنار میں ہے:

"لأن السب هو الشتم وهو ما يقصد به الإهانة و التعيير."

(7/ 556 ط : الهيئة المصرية العامة للكتاب)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307102072

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں